وَقَالَتِ الْيَهُودُ لَيْسَتِ النَّصَارَىٰ عَلَىٰ شَيْءٍ وَقَالَتِ النَّصَارَىٰ لَيْسَتِ الْيَهُودُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ مِثْلَ قَوْلِهِمْ ۚ فَاللَّهُ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
یہودی کہتے ہیں، عیسائیوں کا دین کچھ نہیں ہے، عیسائی کہتے ہیں، یہودیوں کے پاس کیا دھر اہے؟ حالانکہ اللہ کی کتاب دونوں پڑھتے ہیں (اور اصل دین دونوں کے لیے ایک ہی ہے) ٹھیک ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی جو (مقدس نوشتوں کا) علم نہیں رکھتے (یعنی مشرکین عرب نے کہ وہ بھی صرف اپنے طریقہ ہی کو سچائی کا طریقہ سمجھتے ہیں) اچھا، قیامت کے دن اللہ ان کے درمیان حاکم ہوگا اور جس بات میں جھگڑ رہے ہیں اس کا فیصلہ کردے گا
165: پہلے اہل کتاب نے اپنے علاوہ تمام اہل ادیان کی گمراہی کا دعوی کیا، اب ایک دوسرے پر گمراہی اور کفر کا الزام لگا رہے ہیں۔ اس سے ان کی آپس کی نفرت و دشمنی کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ حالانکہ اہل کتاب ہونے کا تقاضا یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے کی تکذیب نہ کرتے، کیونکہ تورات و انجیل میں سے ہر ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں، اسی طرح وہ تمام کتابیں جو اللہ نے بھیجی ہیں ایک دوسرے کی تصدیق کرتی ہیں، حد یہ ہے کہ بت پرست جن کے پاس نہ کوئی علم ہے نہ کوئی آسمانی کتاب، وہ بھی آسمانی ادیان والوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ صحیح راہ پر نہیں ہیں۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اہل کتاب آپس کی منافرت کی وجہ سے ویسی ہی بات کرتے ہیں جیسی بت پرست کرتے ہیں اور انکی صف میں آگئے ہیں۔ (فائدہ) فخر الدین رازی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ نبی کریم( صلی اللہ علیہ وسلم )کی امت بھی بعینہ اسی بیماری میں مبتلا ہوگئی ہے، کہ ہر جماعت ایک دوسرے کی تکفیر کرتی ہے، حالانکہ قرآن سبھی پڑہتے ہیں۔ رازی کا یہ قول مجمل ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام کی طرف اپنی نسبت کرنے والی بہت سی جماعتوں نے یا تو قرآن کی اتباع کا دم بھرا، اور رسول کی سنت کاانکار کردیا، دعوی تو کیا کہ قرآن وسنت دونوں کی اتباع کرتی ہیں، لیکن عملا سنت سے اعراض کیا، طرح طرح کی باطل تاویلات کے ذریعہ سنت کو اپنی عملی زندگی سے خارج کردیا، اس طرح رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ڈگر سے ہٹ گئے، اور مختلف جماعتیں پیدا ہو گئیں۔ اللہ تعالی نے (قرآن وسنت دونوں سے جو راہ بنتی ہے اس کے بارے میں) فرمایا ہے: اور یہ میری سیدھی راہ ہے، تم لوگ اسی کی اتباع کرو، دیگر راہوں کی اتباع نہ کرو۔( الانعام : 153) اور نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم )نے فرمایا : میں تمہارے لئے دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، میرے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے اگر ان دونوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رہو گے، اللہ کی کتاب اور میری سنت۔ آج مسلمانوں میں جتنی گمراہیاں، جتنے اختلافات، اور جتنی جماعتیں ہیں، ان سب کا واحد سبب، نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت سے دوری ہے۔ جب سے نبی کریم ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نبی بنا کر بھیجے گئے قیامت تک صرف ایک جماعت صحیح اسلام پر قائم ہے اور رہے گی، اور یہ وہ جماعت ہے جو اپنے دونوں ہاتھوں میں قرآن وسنت کا مشعل لئے دنیا والوں کو دعوت دے رہی ہے کہ صحیح اسلام کی راہ یہ ہے آؤ ، اس پر گامزن ہو جاؤ۔