إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ
یہ وہ دن تھا کہ تم ادھر قریب کے ناکے پر تھے، ادھر دشمن دور کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نچلے حصے میں تھا (یعنی سمندر کے کنارے نکل گیا تھا) اور اگر تم نے آپس میں لڑائی کی بات ٹھہرائی ہوتی تو ضرور میعاد سے گزیز کرتے (کیونکہ تمہیں دشمنوں کی کثرت سے اندیشہ تھا اور تم میں سے بہتوں کی نظر قافلہ پر تھی) لیکن اللہ نے دونوں لشکروں کو بھڑا دیا تاکہ جو بات ہونے والی تھی اسے کر دکھائے، نیز اس لیے کہ جسے ہلاک ہونا ہے اتمام حجت کے بعد ہلاکت ہو اور جو زندہ رہنے والا ہے اتمام حجت کے بعد زندہ رہے اور بلا شبہ اللہ سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔
(37) میدان بدر کی یاد دلائی جارہی ہے جہاں اللہ کی عظیم نشانیاں ظاہر ہوئیں اور مسلما نوں کو ان کی قلت عدد بے سروسامانی اور بظاہر ناموافق جنگی حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے نصر مبین عطا کیا، مفسرین نے لکھا ہے کہ مشرکین جہاں قیامت پذیر تھے وہاں پانی تھا زمین ایک حد تک منا سب تھی جس میں پاؤں نہیں دھستا تھا اور جہاں مسلمان قیام پذیر تھے وہاں پانی نہیں تھا اور زمین نا مناسب تھی ریتلی زمین ہو نے کی وجہ سے اس پر پاؤں نہیں ٹکتا تھا چلنا دشوار تھا اور ابو سفیان کا قافلہ دشمن کے پیچھے تھا نیز ایک بہت بڑی فوج اس کی حفاظت کرر ہی تھی، اور مسلمان نکلے تھے ایک تجارتی قافلہ کا پیچھا کرنے کے لیے اور اللہ کی مرضی سے ایک بڑے لشکر سے مڈ بھیڑ ہوگئی ان نامساعد حالات کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح دی ، تاکہ اللہ جو چاہتا تھا کہ اس کا دین غالب ہو اس کا کلمہ بلند ہو وہ ہو کر رہے اور تاکہ اب اس کے بعد اسلام نہ قبول کرنے کی کوئی حجت کسی کے پاس باقی نہ رہے جو کفر پہ ہلاک ہوا تو ہلاک ہونے سے پہلے اسے معلوم رہے کہ وہ جان بوجھ کر استکبار کی راہ اختیار کر رہا ہے اور کفر پر مر رہا ہے، اور جو اسلام لانا چاہے وہ اس ایمان ویقین کے بعد اس دین کو قبول کرے کہ یہی دین برحق ہے اور اسی کو اختیار کرنے میں دنیا وآخرت کی بھلائی ہے۔