سورة الانفال - آیت 34

وَمَا لَهُمْ أَلَّا يُعَذِّبَهُمُ اللَّهُ وَهُمْ يَصُدُّونَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَا كَانُوا أَوْلِيَاءَهُ ۚ إِنْ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَّا الْمُتَّقُونَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

لیکن (اب کہ تجھے مکہ چھوڑ دینے پر انہوں نے مجبور کردیا) کون سی بات رہ گئی ہے کہ انہیں عذاب نہ دے حالانکہ وہ مسجد حرام سے مسلمانوں کو روک رہے ہیں؟ اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اس کے متولی ہونے کے لائق نہیں، اس کے متولی اگر ہوسکتے ہیں تو ایسے ہی لوگ ہوسکتے ہیں جو متقی ہوں (نہ کہ مفسد و ظالم) لیکن ان میں سے اکثر کو (یہ حقیقت) معلوم نہیں۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(28) کفار قریش جن معاصی اور جرائم کا ارتکاب کرتے تھے ان کا تقاضا یہ تھا کہ اللہ انہیں فورا ہی عذاب میں مبتلا کردیتا، لیکن جیسا اوپر بیان کیا گیا کہ ان کہ درمیان رسول اللہ (ﷺ) موجود تھے،اسی لئے عذاب الہی سے بچتے رہے۔ جب رسول اللہ (ﷺ) اور انکے بعد وہ کمزور مسلمان مکہ سے نکل گئے جو توبہ واستغفار میں مشغول رہتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، جس میں انہیں عذاب کی دھمکی دے دی گئی چنانچہ اللہ نے اپنے رسول کو مکہ فتح کرنے کی اجازت دے دی اور مسلمانوں کے ہاتھوں کفار قریش پر وہ عذاب نازل ہوا جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ میں مشرکین قریش کے اس زعم باطل کی تردید ہے کہ بیت اللہ کے والی اہل تقوی ہوں گے گو یا اس آیت میں یہ بشارت ہے کہ مکہ فتح ہوگا اور کافروں کے بجائے مسلمان بیت اللہ کے والی بنیں گے۔