وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ
اور (اے پیغمبر) وہ وقت یاد کرو جب (مکہ میں) کافر تیرے خلاف اپنی چھپی تدبیروں میں لگے تھے تاکہ تجھے گرفتار کر رکھیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کردیں اور وہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہے تھے اور اللہ اپنی مخفی تدبیریں کر رہا تھا، اور اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔
(24) آیت (26) İوَاذْكُرُوا إِذْ أَنْتُمْ قَلِيلٌĬمیں اللہ تعالیٰ نے عام صحابہ کرام کے ساتھ جو احسان کیا تھا اس کا ذکر تھا تاکہ وہ اللہ کا شکر ادا کریں اب نبی (ﷺ) پر اللہ کا جو خصوصی احسان ہوا اس کا ذکر ہو رہا ہے، کہ کس طرح اللہ نے قریش کی خطر ناک سازش سے ان کو نجات دی تاکہ آپ اس احسان عظیم پر اللہ کا شکر ادا کریں۔ محمد بن اسحاق، امام احمد، حاکم اور بیہقی وغیر ہم نے کفار قریش کی اس سازش سے متعلق جو روایتیں اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب انصار مدینہ اسلام لے آئے اور اسلام کی روشنی ہر طرف پھیلنے لگی تو کفار قریش کے دل خوف کے مارے دہل گئے چنانچہ سبھی رؤسائے قریش دارالندوہ میں نبی کریم (ﷺ) کے بارے میں آخری رائے پر متفق ہونے کے لیے جمع ہوئے، ابو البختری بن ہشام نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ محمد کو تم لوگ ہاتھ پاؤں باند کر ایک گھر میں بند کر دو۔ صرف ایک سوراخ رکھو جس سے اس کو کھانا پانی دیتے رہو یہاں تک کہ اس کی موت آجائے آیت میںİلِيُثْبِتُوكَĬسے اسی طرف اشارہ ہے لیکن شیطان ( جس نے ایک نجدی بوڑھے کی شکل اختیار کر رکھی تھی) نے اس رائے کو نہیں سراہا، تو ہشام بن عمر و نے کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ تم لوگ محمد کو شہر بدر کردو پھر یہ کچھ نہیں کر پائے گا آیت میں İأَوْ يُخْرِجُوكَĬ سے اسی طرف اشارہ ہے، نجدی بوڑھے نے اس رائے پر اعتراض کیا تو ابو جہل نے کہا، میری رائے یہ ہے کہ تم لوگ ہر خاندان سے ایک جوان لو، اور وہ سب مل کر ایک ساتھ تلوار سے حملہ کر کے اسے قتل کردیں بنی ہاشم تمام اہل قریش سے جنگ نہیں مو ل لیں گے اور اگر دیت طلب کریں گے تو ہم سب مل کر دیت دے دیں گے اس طرح محمد سے نجات پاجائیں گے آیت میں İأَوْ يَقْتُلُوكَĬسے اسی طرف اشارہ ہے بوڑھے نجدی نے اس رائے کی تائید کی چنانچہ سب رسول اللہ (ﷺ) کو قتل کردینے پر متفق ہوگئے جبرائیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ (ﷺ) کو اس سازش کی اطلا ع دے دی اور کہا آج کی رات اپنے بستر پر نہ سویئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی ہجرت کی اجازت دے دی اپ نے علی (رض) کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا اور کہا کہ میری چادر اوڑھ لینا وہ تمہیں کوئی گز ند نہیں پہنچا سکیں گے، پھر آپ نے ایک مٹھی مٹی لی اور کافروں کے سروں پر ڈالتے ہوئے اور سورۃ یسین پڑھتے ہوئے وہاں سے نکل گئے اور دشمن آپ کو نہ دیکھ سکے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش کو ناکام بنا دیا۔