أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
پھر کیا تم چاہتے ہو اپنے رسول سے بھی (دین کے بارے میں) ویسے ہی سوالات کرو جیسے اب سے پہلے موسیٰ سے سے کیے جا چکے ہیں؟ (یعنی جس طرح بنی اسرائیل نے راست بازی کی جگہ کٹ حجتیاں کرنے اور بلا ضرورت باریکیاں نکالنے کی چال اختیار کی تھی ویسی ہی تم بھی اختیار کرو؟ سو یاد رکھو) جو کوئی بھی ایمان کی نعمت پا کر پھر اسے کفر سے بدل دے گا تو یقینا وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا اور فلاح و کامیابی کی منزل اس پر گم ہوگئی
161: اس آیت میں مسلمانوں کو ایسی چیزوں کے بارے میں کثرت سوال سے منع کیا گیا ہے جو ابھی وقوع پذیر نہیں ہوئیں، صحیحین میں مغیرہ بن شعبہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے قیل و قال، اضاعتِ مال اور کثرت سوال سے منع فرمایا صحیح مسلم میں ہے تم لوگ مجھے چھوڑ دو جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں، تم سے پہلے کے لوگ کثرت سوال اور انبیاء کی مخالفت کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ محققین نے لکھا ہے کہ یہاں مراد ایسے سوالات کی ممانعت ہے جن کا مقصد محض اعتراض کرنا، اور دین میں شدت پیدا کرنا ہو، اگر سوالات علم حاصل کرنے کے لیے ہوں تو کوئی ممانعت نہیں، بلکہ اللہ نے ایسے سوالات کا حکم دیا ہے، ۔ کہ اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے پوچھ لو، الانبیاء : 7۔