أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
(اگر وہ ایک مرتبہ تمہاری ہدایت کے لیے حسب ضرورت احکام بھیج سکتا ہے تو یقینا اس کے بعد بھی بار بار ایسا کرسکتا ہے) اور پھر کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہی کے لیے آسمان و زمین کی سلطانی ہے اور اس کے سوا کوئی نہیں جو تمہارا دوست اور مددگار ہو
دوسری آیت میں اسی کی مزید تاکید آئی ہے کہ آسمان و زمین کی بادشاہت اللہ کے لیے ہے، ساری مخلوق اس کے زیر اطاعت ہے، انہیں اللہ کے اوامر و نواہی کو بہرحال بجا لانا ہے۔ اللہ انہیں جو چاہے گا حکم دے گا، اور جس کام سے چاہے گا روکے گا، اور حو حکم چاہے گا منسوخ کرے گا اور جو چاہے گا باقی رکھے گا۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہودیوں نے نسخ کا انکار صرف کفر و عناد کی وجہ سے کیا، ورنہ یہ چیز عقلی طور پر ممنوع نہیں، اس لیے کہ اللہ جو چاہتا ہے کرتا، اور گذشتہ آسمانی کتابوں میں نسخ واقع ہوا ہے، آدم (علیہ السلام) کے لیے اپنے بیٹے بیٹی کی آپس میں شادی حلال تھی، پھر حرام کردی گئی، نوح (علیہ السلام) جب سفینہ (کشتی) سے باہر آئے تو تمام حیوانات کا کھانا جائز تھا، اس کے بعد بعض کی حلت منسوخ ہوگئی، یعقوب (علیہ السلام) اور ان کے بیٹوں کے لیے بیک وقت دو بہنوں سے شادی جائز تھی، اس کے بعد تورات میں اسے حرام کردیا گیا۔