وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ لَهُمْ قُلُوبٌ لَّا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَّا يَسْمَعُونَ بِهَا ۚ أُولَٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ
اور کتنے ہی جن اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے پیدا کیا (یعنی بالآخر ان کا ٹھکانا جہنم ہونے والا ہے) ان کے پاس عقل ہے مگر اس سے سمجھ بوجھ کا کام نہیں لیتے۔ آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے، کان ہیں مگر ان سے سننے کا کام نہیں لیتے۔ وہ (عقل و حواس کا استعمال کھو کر) چارپایوں کی طرح ہوگئے۔ بلکہ ان سے بھی زیادہ کھوئے ہوئے۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو یک قلم غفلت میں ڈوب گئے ہیں۔
(109) ہدایت وگمراہی اور اللہ کی تو فیق وعدم تو فیق کو جو بات ابھی گذری ہے، اسی مناسبت سے اللہ تعالیٰ نے یہاں خبر دی ہے کہ اس نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی عقل وبصیرت سے کامل لے کر اپنے معبود حقیقی کو پہچانیں اور اسی کی عبادت کریں اور اسی کے احکام واوامر کے مطابق زندگی گذاریں، بہت سے جنوں اور انسانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اللہ کے دین کا انکار کرتے ہیں۔ اور ان کا حال ایسا ہوتا ہے، کہ ان کے دل ان کی آنکھیں اور ان کے کان بیکار ہوجاتے ہیں کوئی بھی خیر کی بات قبول کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی توحید باری تعالیٰ اور اطاعت وبندگی کے اللہ ہی کے لیے مختص ہونے کے سارے دلائل وبراہین اس کے سامنے پیش کردیئے جاتے ہیں، لیکن ان سے وہ مستفید نہیں ہوتا بلکہ اس کا کبر وغرور بڑھتا جاتا ہے، اس کی حالت جانوروں سے بدتر ہوجاتی ہے، کہ جانور تو کم از کم اپنے نفع ونقصان کے درمیان تمیز کر لیتا ہے، اور وہی کام کرتا ہے جس کے لئے اسے پید ا کیا گیاہے، لیکن کافر ومتکبر جن وانسان خیر وشر کے درمیان تمیز کی صلاحیت ہی کھودیتا ہے تو گو یا اس کی حالت ایسی ہوجاتی ہے، کہ جیسے اللہ نے اسے جہنم کے لیے پیدا کیا ہے، وہ جہنم کی راہ پر آگے بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی موت آجاتی ہے، اور جہنمی بن جاتا ہے، اور یہ بات اللہ کے علم ازلی میں ہے کہ کون حق کی دعوت کو قبول کرے گا اور کون انکار کردے گا، کسے خیر کی تو فیق ہوگی اور کسے نہیں ہوگی، کون جنت کی راہ پر لگے گا اور کون جہنم کی راہ پر۔