وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور (اے پیغمبر) جب ایسا ہوا تھا کہ تیرے پروردگار نے اس بات کا اعلان کردیا تھا (اگر بنی اسرائیل شرارت و بدعملی سے باز نہ آئے تو) وہ قیامت کے دن کے تک ان پر ایسے لوگوں کو مسلط کردے گا جو انہیں ذلیل کرنے والے عذاب میں مبتلا کریں گے، حقیقت یہ ہے کہ تیرا پروردگار (بدعملی کی) سزا دینے میں دیر کرنے والا نہیں اور ساتھ ہی بخشنے والا رحمت والا بھی ہے۔
(100) سرکشی، اللہ کے اوامر کی مخالفت اور حیلہ کے ذریعہ حرام کو حلال بنانے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے ذلت ورسوائی بنی اسرائیل کی قسمت بنادی، اور یہ فیصلہ کردیا کہ دنیا کی دوسری قومیں انہیں ہمیشہ ابتلاء وآزمائش اور طرح طرح کی مصیبتوں میں ڈالے رکھیں، گی کہا جاتا ہے، کہ سب سے پہلے خود موسیٰ (علیہ السلام) نے سات سال تک ان سے ٹیکس وصول کیا۔ سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بابل کے بادشاہ بخت نصرنے ان کے ملک کو تہ وتاراج کردیا، مردوں کو قتل کیا اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا، اور ان پر جزیہ نافذ کردیا، اور ان میں بہتوں کو بابل کی طرف جلاوطن کردیا، جہاں وہ ستر (70) سال تک بھٹکتے رہے، اس کے بعد بھی مختلف یونانی، کشدانی اور کامد انی بادشاہوں نے انہیں اپنا غلام بنادیا اور ذلت ورسوائی کا یہ دور چلتا رہا، یہاں تک کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے اکہتر (71) سال بعد ان کے ملک پر رومانیوں کا قبضہ ہوگیا جنہوں نے انہیں وہاں سے نکال دیا، اور دنیا کے مختلف حصوں میں ذلیل وخوار بن کر تتربتر ہوگئے، ان دنوں جو ان کی بظاہر ایک حکومت سرزمین فلسطین پر قائم ہوگئی ہے تو یہ قرآن کریم کی اس خبر کے خلاف نہیں ہے، بلکہ سورۃ آل عمران کی آیت (112) کے مطابق امریکہ اور دیگر غیر مسلم حکومتوں کے بل بوتے پر قائم ہے، اگر یہ حکومتیں اپنا ہاتھ کھینچ لیں تو اسرائیلی حکومت باقی نہیں رہ سکے گی، اور اب بھی جو حکومت قائم ہے، اس میں اللہ کی کوئی مصلحت ہے، ورنہ ان کی ذلت کا عالم یہ ہے کہ یہودیوں کو وہاں ایک دن کے لیے بھی سکون حاصل نہیں ہے۔