وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اور جب اس شہر کے باشندوں میں سے ایک گروہ نے (ان لوگوں سے جو نافرمانوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے) کہا تم ایسے لوگوں کو (بیکار) نصیحت کیوں کرتے ہو جنہیں (ان کی شقاوت کی وجہ سے) یا تو خدا ہلاک کردے گا یا نہایت سخت عذاب (اخروی) میں مبتلا کرے گا؟ انہوں نے کہا اس لیے کرتے ہیں تاکہ تمہارے پروردگار کے حضور معذرت کرسکیں (کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا) اور اس لیے بھی کہ شاید لوگ باز آجائیں۔
(99) ابن عباس (رض) کہتے ہیں، اس بستی کا نام "ایلات "تھا جو بحر قلزم کے کنارے پر آبادتھی، آج کل یہاں پر اسرائیل کی بندرگاہ ہے، جمہور مفسرین کا خیال ہے کہ اس بستی کے رہنے والے اسرائیلی لوگ مچھلی کے شکار کے بارے میں تین جماعتوں میں بٹ گئے، تھے، ایک جماعت نے ( جن کی تعداد ستر (70) ہزار تھی) نافرمانی کی اور شکار کیا، دوسری جماعت نے نہ نافرمانی کی اور نہ دوسروں کو منع کیا، تیسری جماعت نے شکار نہیں کیا اور دسروں کو بھی منع کیا اورشکار کرنے والی جماعت سے الگ ہوگئی، دوسری جماعت نے تیسری جماعت سے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کر رہے ہو، جنہیں اللہ یا تو ہلاک کرنے والا ہے، یا عذاب دینے والا ہے ؟ اور یہ بات انہوں نے گمان غالب کی بنیاد پر کہی تھی، اس لیے کہ بالعموم ایسا ہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نافرمانوں کو یا تو ہلاک کردیتا ہے یا انہیں کسی عذاب میں مبتلا کردیتا ہے، تیسری جماعت نے کہا کہ ہم ایسا اس لیے کر رہے ہیں تاکہ اللہ کے نزدیک ہمارا عذر ثابت ہوجائے اور ممکن ہے کہ وہ لوگ راہ راست پر آجائیں لیکن نافرمانوں نے ان نیک لوگوں کی ایک نہیں سنی اور اپنے گناہوں پر مصر ہے، تو اللہ تعالیٰ نے ان صالحین کو بچالیا، اور ظالم نافرمانوں کو ان کے گناہوں کی وجہ سے شد ید عذاب میں مبتلا کردیا، اور ان کے کبر اور معاصی پر اصرار کی وجہ سے ان کی صورتیں مسخ کر کے بندر بنادیا۔ شوکانی کہتے ہیں کہ قرآن کے ظاہری الفاظ یہی بتاتے ہیں کہ عذاب سے صرف وہی لوگ بچ سکے جنہوں نے منع کیا تھا، اور صورتیں انہی کی مسخ ہوئیں جنہوں نے نافرمانی کی تھی، دوسری جماعت یعنی جن لوگوں نے نہ نافرمانی کی اور نہ دوسروں کو منع کیا ان کے بارے میں علمائے تفسیر کا اختلاف ہے، کسی نے کہا ہے کہ وہ بھی ہلاک کردیئے گئے اور کسی نے کہا کہ وہ لوگ ہلاک نہیں کیے گئے، ابن عباس کی رائے یہی تھی کہ وہ لوگ ہلاک کردیئے گئے، لیکن عکرمہ نے جب انہیں بتایا کہ ان لوگوں نے پہلی جماعت کے فعل کو برا سمجھا تھا اور ان کی مخالفت کی تھی، تو ان کی رائے بدل گئی تھی۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اغاثتہ اللھفان"میں دین میں حیلہ سازی کی حرمت پر اس آیت سے استدلال کیا ہے، لکھتے ہیں، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شیطان کی ایک فریب کاری دین میں حیلہ مکر اور دھوکہ دہی کو راہ دینا ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال بنایا جاتا ہے، فرائض کو ساقط کیا جاتا ہے اور اوامر ونواہی کو نظر انداز کردیا جاتا ہے اور یہی وہ باطل رائے ہے جس کی مذمت پر سلف صالحین کا اتفاق ہے، آگے چل کر لکھتے ہیں کہ حیلہ کی ایک قسم کے ذریعہ واجبات کو ساقط کردیا جاتا ہے، اور محرمات کو حلال کردیا جاتا ہے یہی وہ حیلہ ہے جسے تمام سلف صالح نے مذموم قرار دیا ہے، اور ایسے تمام حیلہ سازوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اس کے بعد سنیچر والے یہودیوں کے بارے میں لکھا ہے کہ جب انہوں نے سنیچر کے دن مچھلی کے شکار کی حرمت کو حیلہ سازی سے حلال بنا لیا تو اللہ نے ان کی صورتیں مسخ کر کے بندر بنا دیا دین میں حیلہ سازی کو راہ دینے والوں کو برے انجام سے ڈرتے رہنا چا ئیے۔