سورة الاعراف - آیت 161

وَإِذْ قِيلَ لَهُمُ اسْكُنُوا هَٰذِهِ الْقَرْيَةَ وَكُلُوا مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ وَقُولُوا حِطَّةٌ وَادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِيئَاتِكُمْ ۚ سَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور پھر (وہ واقعہ یاد کرو) جب بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا تھا، اس (٢) شہر میں جاکر آباد ہوجاؤ، (جس کے فتح کرنے کی تمہیں توفیق ملی ہے) اور (یہ نہایت زرخیز علاقہ ہے) جس جگہ سے چاہو اپنی غذا حاصل کرو اور تمہاری زبانوں پر حطۃ (٣) کا کلمہ جاری ہو اور اس کے دروازے میں داخل ہو تو (اللہ کے حضور) جھکے ہوئے ہو۔ ہم تمہاری خطائیں بخش دیں اور نیک کرداروں کو (اس سے بھی) زیادہ اجر دیں گے۔

تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ

(97) بنی اسرائیل کی اخلاقی حالت اتنی پست ہوچکی تھی کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ بالاتمام احسانات کو فراموش کردیا، اور سرکشی اور نافرمانی ان کا شیوہ بن گئی اور اللہ کے احکام کا مذاق اڑا نا ان کی فطرت ثانیہ بن گئی، جب بھی اللہ انہیں حکم دیتا اس کی نافرمانی کرتے اور اس کے ساتھ حقارت آمیز معاملہ کرتے، ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قسم کی ایک دوسری اخلاقی اور دینی گراوٹ کو بیان کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ وہ بیت المقدس میں " حطۃ "کہتے ہوئے داخل ہوں یعنی اے اللہ ہمارے گناہ معاف کردے، لیکن انہوں نے اللہ کے حکم کی مخالفت کی اور اپنے سرینوں کی طرف سے داخل ہوئے اور حطۃ کے بجائے "حنطۃ کہا، جس کے پاداش میں اللہ تعالیٰ انہیں طاعون کی بیماری میں مبتلا کردیا اور ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہوگئے، یہ مضمون سورۃ بقرہ آیات (58/59) میں بیان کیا جا چکا ہے۔