وَاتَّخَذَ قَوْمُ مُوسَىٰ مِن بَعْدِهِ مِنْ حُلِيِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهُ خُوَارٌ ۚ أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ
اور پھر ایسا ہوا کہ موسیٰ کی قوم نے اس کے (پہاڑ پر) چلے جانے کے بعد اپنے زیور کی چیزوں سے (یعنی زیور کی چیزیں گلا کر) ایک بچھڑے کا دھڑ بنایا جس سے گائے کی سی آواز نکلتی تھی اور اسے (پرستش کے لیے) اختیار کرلیا۔ (افسوس ان کی عقلوں پر) کیا انہوں نے اتنی (موٹی سی) بات بھی نہ سمجھی کہ نہ تو وہ ان سے بات کرتا ہے۔ نہ کسی طرح کی رہنمائی کرسکتا ہے؟ وہ اسے لے بیٹھے اور وہ (اپنے اوپر) ظلم کرنے والے تھے۔
(80) جب موسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے حکم کے مطابق چالیس دن کے لیے کوہ طور پر چلے گئے تو شیطان نے بنی اسرائیل کو شرک میں مبتلا کردیا، معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ مصر کے دور غلامی میں غیر اللہ کی عبادت اور شرکیہ اعمال کے ایسے عادی ہوگئے تھے کہ فر عون سے نجات پانے کی بعد بھی جب بھی کوئی موقع آتا فورا ہی شرک کی طرف لپکتے تھے، جبھی تو انہوں نے کوہ سینا کی طرف آتے ہوئے راستہ میں ایک قوم کو بت پرستی کرتے دیکھا تو موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمارے لیے بھی کوئی معبود بنا دو۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہونے گئے تو شیطان کے بہکاوے میں آگئے، اور اس بچھڑے کی پرستش شروع کردی جو سامری ( بنی اسرائیل کا ایک فر د) نے قبطیوں کے زیورات سے ان کے لیے بنایا تھا، یہ زیورات بنی اسرئیل کے پاس عاری آگئے تھے، لیکن قبطیوں کے ہلاک ہونے کے بعد ان کے مالک بن گئے تھے سامری نے اس بچھڑے میں وہ مٹی ڈال دی جو جبرائیل کے گھوڑے کے کھر کے نیچے سے اس نے لے لی تھی، جس کی وجہ سے اس میں سے گائے کی آواز نکلتی تھی، چنانچہ سامری نے انہیں دھوکہ دیا اور کہا کہ یہی ہمارا معبود ہے جس نے ہمیں فرعون سے نجات دلائی تھی، سب نے اس کی بات مان لی اور ہارون (علیہ السلام) کے لاکھ سمجھانے کے باوجود اس بچھڑے کی عبادت کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو اس بت پرستی کی خبر کوہ طور پر ہی دے دی تھی، جب مدت پوری ہونے کے بعد واپس آئے تو مارے غصہ کے اللہ کی طرف سے دی گئی تختیوں کو زمین پر ڈال دیا، اور ہارون (علیہ السلام) کے سر کے بال پکڑ کر اپنی طرف کھینچنے لگے اور ان کی زجر وتوبیخ کرنے لگے کہ آپ کے رہتے ہوئے ایسا کیوں ہوا؟ تو انہوں نے اپنی مجبوری بتائی کہ ان کی ہزار کوششوں کے باوجود بنی اسرائیل کے لوگ شرک پر جمے رہے، بلکہ ان کی سر کشی کا عالم یہ ہوگیا کہ قریب تھا سب مل کر مجھے قتل کردیتے، اس آیت کریمہ میں چھ آیتوں تک بنی اسرائیل کی اسی گمراہی کو بیان کیا گیا ہے۔ بنی اسرائیل کی آنکھوں پر جہا لت اور گمراہی کی پٹی بندھ گئی تھی جبھی تو انہیں یہ سوچنے کی تو فیق ہی نہیں ہوئی کہ بچھڑا نہ ان سے باتیں کرتا ہے اور نہ کسی خیر کی طرف ان کی رہنمائی کرتا ہے، پھر خالق ارض وسماوات کے بجائے وہ ان کا معبود کیسے ہوجائے گا ؟۔