وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَىٰ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَىٰ أَصْنَامٍ لَّهُمْ ۚ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَل لَّنَا إِلَٰهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ ۚ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ
اور ہمارے حکم سے ایسا ہوا کہ بنی اسرائیل سمندر پار اتر گئے، وہاں ان کا گزر ایک گروہ پر ہوا کہ اپنے بتوں پر مجاور بنا بیٹھا تھا، بنی اسرائیل نے کہا، اے موسیٰ ! ہمارے لیے بھی ایسا ہی ایک معبود بنا دے جیسا ان لوگوں کے لیے ہے، موسیٰ نے کہا (افسوس تم پر) تم بلاشبہ ایک جاہل گروہ ہو۔
(71) گذشتہ آیت کے اختتام کے ساتھ ہی موسیٰ علیہ السلام، اور فرعون اور قطیبوں کے واقعات ختم ہوگئے، اب اس آیت کریمہ میں موسیٰ (علیہ السلام) اور نبی اسرائیل کے واقعات کی ابتدا ہو رہی ہے جو فرعون کی غلامی سے آزاد ہونے اور موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ سمندر پار کرنے کے بعد جزیرہ تمائے سینا کے علاقے کی طرف روانہ ہوئے، راستہ میں ان کا گذر ایسی قوم کے پاس سے ہوا جو بتوں کی پرستش کرتی تھی، بعض مفسرین کا خیال ہے کہ کنعانی لوگ تھے بعض کہتے ہیں کہ وہ لوگ قبیلہ لخم کے تھے اور "رقہ"میں قامت مذیر تھے، یہ لوگ گائے کے مجسموں کی پر ستش کیا کرتے تھے، انہیں دیکھ کر بنی اسرائیل نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مطالبہ کیا کہ ہمیں بھی ایک ایسا ہی بت چاہئیے جس کے سامنے جھکیں۔ مفسر بغوی لکھتے ہیں، کہ بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت میں کوئی شبہ نہیں تھا، بلکہ ان کا مقصود یہ تھا کہ ان بت پرستوں کی طرح ان کے لیے بھی کوئی ایسی چیزہونی چاہئے، جس کی تعظیم کرکے اللہ کا تقرب حاصل کریں، اپنی شدت جہالت کی وجہ سے سمجھ بیٹھے تھے کہ اس سے ان کے دین و ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا، انتہی، اسی لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ تم لوگ اللہ تعالیٰ کی شان وعظمت سے بالکل ناواقف ہو، عبادت کی تمام قسمیں صرف اللہ کے ساتھ خاص ہیں، ان بت پرستوں کا شرک ان کے لیے مہلک اور ان کا عمل سراسر باطل ہے۔ امام ترمذی، امام احمد، اور ابن جریر وغیر ہم نے ابو واقداللیثی سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) جب غزوہ حنین کے لیے نکلے تو ایک درخت کے پاس سے گذرے جس پر مشر کین اپنے ہتھیار لٹکا یا کرتے تھے، اس لیے اسے " ذات انواط"کہا کرتے تھے، تو صحا بہ میں سے بعض لوگوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! ہمارے لیے بھی ایک ایسا ہی "ذات انواط"بنا دیجئے، تو آپ (ﷺ) نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم لوگ گذشتہ قوموں کی راہ پر ضرور چلو گے۔ یہی وجہ ہے کہ عمر بن خطاب (رض) نے مقام حدیبیہ کے اس درخت کو کٹوادیا تھا جس کے نیچے رسول اللہ (ﷺ) نے صحابہ کرام سے بیعت لی تھی، جسے بیعۃ الرضوان کہا جاتا ہے، امام ابو بکر طرطوش مالکی لکھتے ہیں کہ اگر تم کوئی ایسا درخت دیکھوجس کی لوگ زیارت اور تعظیم کرتے ہوں اسے شفا یابی کا سبب مانتے ہوں، اور اس میں کیلیں ٹھو کتے ہوں اور اکپڑوں کے ٹکڑے لٹکا تے ہوں تو اسے کاٹ دو، کیونکہ وہ ذات انواط ہے۔