وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَىٰ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِن كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
اور اگر بستیوں کے رہنے والے (جن کی سرگزشتیں بیان کی گئی ہیں) ایمان لاتے اور برائیوں سے بچتے تو ہم آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے ضرور ان پر کھول دیتے، لیکن انہوں نے جھٹلایا پس اس کمائی کی وجہ سے جو انہوں نے (اپنے اعمال کے ذریعہ) حاصل کی تھی ہم نے انہیں پکڑ لیا (اور وہ مبتلائے عذاب ہوئے)۔
(53) مندر جہ ذیل چار آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان ہلاک کی جانے والی قوموں کی قلت ایمانی کا حال بیان کیا ہے کہ وہ لوگ ایمان وتقوی سے عاری تھے، اگر وہ اپنے زمانے کے انبیاء پر ایمان لائے ہوتے اور محرمات سے اجتناب اور اعمال صالحہ کا التزام کیا ہوتا تو اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین سے اپنی برکتوں کے دروازے ان کے لیے کھول دیتا، لیکن انہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تو اللہ نے ان کے کفر ومعاصی کی وجہ سے انہیں پکڑلیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو اپنے اوامر کی مخالفت پر ڈراتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کا عذاب تو کسی وقت بھی آسکتا ہے، اللہ کی گرفت کا خوف وہ لوگ اپنے دلوں سے نکال دیتے ہیں جو عقل سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔ حسن بصری کا قول ہے کہ مؤمن نیکیاں کرتا رہتا ہے اور اللہ سے خائف رہتا ہے، اور فاجر انسان گناہ کرتا رہتا ہے اور پھر بھی اپنے آپ کو مامون سمجھتا ہے۔