وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِّن نَّبِيٍّ إِلَّا أَخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ
اور ہم نے جب کبھی کسی بستی میں کوئی نبی بھیجا تو ہمیشہ ایسا کیا کہ اس کے باشندوں کو سختیوں اور نقصانوں میں مبتلا کردیا کہ (سرکشی سے باز آئیں اور) عاجزی و نیاز مندی کریں۔
(52) پانچ انبیاء کرام اور ان کی امتوں کے واقعات اور انجام کار بیان کرنے کے بعد یہاں اللہ تعالیٰ نے گذشتہ قوموں کا مجموعی احوال واقعی بیان کیا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ نے کسی قوم کی ہدایت کے لیے کسی نبی کو بھیجا، اور انہوں نے اس کی تکذیب کی اور شرک وگمراہی پر اصرار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں کلی طور پر ہلاک کرنے سے پہلے محتاجی، تنگدستی اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کیا، کہ اللہ کی طرف رجوع کریں، لیکن جب وہ اپنے کفر وشرک پر مصر رہے تو اللہ نے ان کی تنگدستی کو فراخی رزق اور بیماری ومصیبت کو عافیت صحت مندی میں بدل دیا، پھر ان کا حال یہ ہوگیا کہ نعمت کی فراوانی نے ان کی آنکھوں پر پٹی اور ان کے دلوں پر مہر لگا دی، اور کہنے لگے یہ کوئی اللہ کی جانب سے آزمائش نہیں بلکہ دستور زمانہ ہے کہ لوگوں کے حالات ایک جیسے نہیں رہتے، ہمارے آباءو اجداد کو پر یشانی لاحق ہوئی لیکن وہ اپنے دین پر قائم رہے، اب ہمیں آسانیاں میسر ہوئی ہیں، تو ہم بھی انہی کی طرح اپنے دین پر قائم رہیں گے، چنانچہ ان کا کفر واستکبار اور بھی بڑھتا گیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اچانک ہلاک کردیا، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ آیت میں کافروں اور اللہ سے غافل لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے۔ لیکن مؤمنوں کا حال اس کے بر عکس ہوتا ہے، وہ نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں، اور جب کوئی مصیبت آتی ہے تو اس پر صبر کرتے ہیں، جیسا کہ مسلم میں روایت ہے کہ مؤمن کا معاملہ عجیب ہے، اس کی ہر بات خیر لیے ہوئے ہے، اور یہ مؤمن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہے، اگر اسے خوشی ملتی ہے تو شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے بہتر ہے، اور اگر اسے تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ اس کے لیے بہتر ہے۔