وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور (١) (اسی طرح) ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں صالح کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل تمہارے سامنے آچکی ہے۔ یہ خدا کے نام پر چھوڑی ہوئی اونٹنی تمہارے لیے ایک (فیصلہ کن) نشانی ہے۔ پس اسے کھلا چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں جہاں چاہے چرے، اسے کسی طرح کا نقصان نہ پہنچاؤ کہ (اس کی پاداش میں) عذاب جانکاہ تمہیں آپکڑے۔
(48) آیت (73) سے (79) تک صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم (قوم ثمود) کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، ثمود عربوں کا ایک قبیلہ تھا، یہ لوگ ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے تھے، ان کا زمانہ ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے اور قوم عاد کے بعد تھا ان کا مسکن حجاز اور شام کے درمیان وادی قری اور اس کے ارد گرد تھا اور بہت ہی طاقت ور لوگ تھے اپنی جسمانی طاقت اور قوت بازو کے زور سے پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر اپنے مکانات بنایا کرتے تھے، نبی کریم (ﷺ) 9 ھ میں تبوک جاتے ہوئے ان کی بستیوں سے گذرے تھے جنہیں مدائن صالح کہا جاتا ہے۔ صحیحین اور مسند احمد میں عبد اللہ بن عمر (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) تبوک جاتے ہوئے قوم ثمود کے گھروں کے پاس رکے تو لوگوں نے ان کے کنوؤں کا پانی پیا، اور آٹا گوندھ کر کھا نا پکانے لگے، لیکن رسول اللہ (ﷺ) نے انہیں حکم دیا کہ اپنی ہانڈ یاں انڈیل دیں اور گوند ھا ہو آٹا اونٹوں کھلا دیں، پھر وہاں سے چل کر اس کنویں کے پاس آئے، جس سے صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی پیتی تھی، اور نبی (ﷺ) نے لو گوں کو قوم ثمود کے گھروں میں داخل ہونے سے منع فرمایا، اور کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ کہیں تمہیں وہ عذاب اپنی گرفت میں نہ لے لے۔ صالح (علیہ السلام) اسی قوم کے ایک شریف خاندان سے تھے، اللہ نے انہیں اس قوم کی ہدایت کے لیے نبی بناکر بھیجا تھا، انہوں نے اپنی قوم کو تمام انبیاء کی طرح توحید کی دعوت دی، لیکن بہت کم اور کمزور لوگوں نے ان کی بات مانی جب صالح (علیہ السلام) نے انہیں مزید ڈرایا اور اللہ کا خوف دلا یا تو انہوں نے ایک نشانی کا مطالبہ کیا، اور کہا کہ وہ نشانی ایک اونٹنی ہو جو پہاڑ سے نکل کر سامنے آجائے چنانچہ ایسا ہی ہوا لیکن پھر بھی بہت ہی کم لوگ ایمان لائے اور اکثر وبیشتر نے تمرد اور سر کشی کی راہ اختیار کی اور اس اونٹنی کو قتل کردیاتو صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ اب تم لوگ اللہ کے عذاب کا انتظار کرو، اللہ نے انہیں بدھ، جمعرات اور جمعہ تین دن کی مہلت دی، جیسا کہ سورۃ ہود کی آیت (65) میں آیا ہے : پس صالح نے کہا کہ تم لوگ تین دن تک اپنے گھروں میں فائدہ اٹھا لو، اور سنیچر کے دن صبح کے وقت ایک عظیم فرشتہ نے ان کے درمیان ایسی چیخ ماری کہ ان کے دل اور ان روحیں ہل گئیں اور سب کے سب مرگئے اس کے بعد صالح علیہ السلا م نے لاشوں کے درمیان کھڑا ہو کر کہا کہ اے میری قوم ! میں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا اور تمہاری خیر خواہی میں کوئی کمی نہیں کی تھی لیکن تم لوگوں نے اپنی خیر خواہی کو کبھی بھی پسند نہیں کیا پھر وہاں سے چلے گئے، نبی کریم (ﷺ) نے جنگ بدر کے بعد مقتولین قریش کے سامنےجن کی لاشیں کنویں میں ڈال دی گئی تھیں ایسا ہی کہا تھا، اور عمر بن خطاب (رض) کے حیرت واستعجاب پر کہا تھا اللہ کی قسم وہ تم سے زیادہ اچھی طرح سن رہے ہیں، لیکن جواب نہیں دے سکتے۔