ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
(اے لوگو) اپنے پروردگار سے دعائیں مانگو، آہ و زاری کرتے ہوئے بھی اور پوشیدگی سے بھی، وہ انہیں پسند نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے ہیں۔
(42) جب اللہ تعالیٰ قادر مطلق، خالق کائنات اور حکیم ہے تو اس کے بندوں کا یہ فرض ہے کہ صرف اسی کی عبادت کریں اور ظاہر وپوشیدہ ہر حال میں صرف اسی کو پکاریں اور اسی کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔ اس آیت کریمہ میں دعا کی دو شرطیں بیان کی گئی ہیں، ایک تو یہ کہ بندہ اپنے رب کے سامنے عاجزی اور انکساری کا اظہار کرے، حافظ سیوطی نے" الا کلیل "میں لکھا ہے کہ دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا عجزوانکساری ہے، حافظ بزارنے انس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) عرفات کے میدان میں ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے رہے، اور دوسری شرط یہ ہے کہ ریاکاری سے بچے بغیر آواز بلند کئے دعا کرے۔ صحیحین میں ابو موسیٰ اشعری (رض) سے مروی ہے کہ لوگ اونچی آواز سے دعا کرنے لگے تو رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا : لوگو ! ذرا آہستگی اور نرمی سے کام لو، تم کسی گونگے بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو۔ جس ذات کو تم پکار رہے ہو وہ بڑی سننے والی اور قریب ہے ۔ حسن بصری کا قول ہے کہ پہلے مسلمان دعا کرنے میں خوب محنت کرتے تھے، اور ان کی آواز نہیں سنائی دیتی تھی، وہ لوگ خفیہ دعا کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور زکریا (علیہ السلام) کے بارے میں فرمایا ہے : جب انہوں نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں فرمایا کہ وہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا یعنی ان لوگوں کو جو اپنی دعاؤں میں خشوع وخضوع اختیار نہیں کرتے اور اونچی آواز سے دعا کرتے ہیں اللہ تعالی انہیں پسند نہیں کرتا ہے۔