وَنَادَىٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ ۚ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ
اور دوزخیوں نے جنت والوں کو پکارا تھوڑا سا پانی ہم پر بہا دو (کہ گرمی کی شدت سے پھٹکے جاتے ہیں) یا اس میں سے کچھ دے دو جو خدا نے تمہیں بخشا ہے، جنت والوں نے جواب دیا خدا نے یہ دونوں چیزیں (آج) منکروں پر روک دی ہیں۔
(35) اس سے مقصود اہل جہنم کی انتہائی رسوائی بیان کرنی ہے کہ دنیا میں تو کمزور مسلمان کو ذلیل وحقیر سمجھتے تھے، اور کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں چھوڑ کر انہیں کیوں کر اپنی رحمت سے نوازے گا، لیکن اب حال یہ ہے کہ اپنی انتہائی بے بسی کے عالم میں جنتیوں کو پکاریں گے اور مکمل عجز وانکساری سے کہیں گے ہمیں اس پانی میں سے تھوڑا سا دے دو جو اللہ نے بطور رحمت تمہیں عطا کیا ہے، تاکہ ہم آگ کی تپش اور پیاس کی شدت سے نجات پائیں، یا تمہیں جو کھا نے اور پینے کی چیزیں ملی ہیں ان میں سے کچھ دے دو، تو جنتی کہیں گے، کہ اللہ نے ان دونوں ہی چیزوں کو جہنمیوں پر حرام کردیا ہے، جنہوں نے اللہ کے دین کو کھیل اور مذاق بنا لیا تھا، اور دنیا اور اس کی زینتوں میں پھنس کر آخرت سے غافل ہوگئے تھے۔