وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور (دیکھو) ان لوگوں کے دلوں میں (ایک دوسرے کی طرف سے) جو کچھ کینہ و غبار تھا ہم نے نکال دیا، ان کے تلے (آگ کے شعلوں کی جگہ) نہریں رواں ہیں۔ انہوں نے (ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے کی جگہ) کہا ساری ستائش اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اس (زندگی) کی راہ دکھائی۔ ہم کبھی اس کی راہ نہ پاتے اگر وہ ہماری رہنمائی نہ کرتا۔ بلا شبہ ہمارے پروردگار کے پیغمبر سچائی کا پیغام لے کر آئے تھے، اور (دیکھو) انہوں نے پکار سنی، یہ ہے جنت جو تمہارے ورثہ میں آئی ان (نیک) کاموں کی بدولت جو تم (دنیا میں) کرتے رہے ہو۔
(30) جنت کی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں کے دلوں سے کینہ وحسد اور بغض وعداوت کو یکسر نکال دے گا، اس لیے کہ اگر وہاں بھی دنیا کی طرح ان کے دل آپس میں صاف نہیں ہوں گے تو جنت کی نعمتیں کامل نہیں ہوگی، اور جنتی اللہ کا شکر ادا کریں گے اور کہیں گے اے اللہ ! تو نے ہم پر احسان کیا ہے کہ ہمیں ایمان وعمل صالح کی تو فیق دی جس کے سبب آج ہم جنت کی بہاروں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ (31) کلمہ "میراث" میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنت عمل صالح کے بدلے میں انہیں ملے گی، بلکہ وہ ایک سبب ہوگا، جس طرح وراثت بغیر کسب و محنت کے ملتی ہے اور نسب اس کا سبب ہوتا ہے، اسی لیے یہ آیت صحیحین کی اس حدیث سے معارض نہیں ہے جس میں نبی کریم (ﷺ) نے فرمایا کہ کسی آدمی کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا۔ آیت کے اس حصہ کی تفسیر میں امام مسلم نے ابوا داؤد سعید اور ابو ہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ﷺ) نے فرمایا، جب اہل جنت جنت میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی ندا پکارے گا، کہ بے شک اب تم لوگ زندہ رہوگے کبھی نہ مروگے، اور بے شک تم لوگ صحت مند رہو گے کبھی بھی بیمار نہیں ہو گے اور بے شک تم لوگ جوان رہو گے کبھی بھی بوڑھے نہیں ہوگے۔ اور بے شک تم لوگ عیش کی زندگی گذار وگے کبھی بھی پریشان حال نہ ہو گے، اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ یہی ہے اللہ کا قول