يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
(اور فرمان الہی ہوا) اے اولاد آدم ! جب کبھی ایسا ہو کہ میرے پیغمبر تم میں پیدا ہوں اور میری آیتیں تمہیں پڑھ کر سنائیں تو جو کوئی (ان کی تعلیم سے متنبہ ہوکر) برائیوں سے بچے گا اور اپنے آپ کو سنوار لے گا اس کے لیے کسی طرح کا اندیشہ نہ ہوگا نہ کسی طرح کی غمگینی۔
[٣٥] ٭جنت کا دوبارہ حصول کیسے ممکن ہے؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی آدم (علیہ السلام) و ابلیس اور جنت سے آدم کے نکلنے کا قصہ بیان فرمایا تو بنی آدم کی دلجوئی کے لیے بھی آیات نازل فرمائیں۔ ابلیس نے جنت میں آدم و حوا کو بے ستر کیا تھا، تو لباس اور اس کے نعمت ہونے اور اچھا لباس پہننے کے لیے کئی آیات نازل فرمائیں۔ جنت میں آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہا السلام) جنت کے پھل بافراغت کھاتے تھے صرف ایک درخت کا کھانا حرام کیا تھا تو اس دنیا کے متعلق بھی فرمایا کہ ماسوائے چند حرام کردہ اشیاء کے جو کچھ زمین میں ہے سب تمہارے لیے مباح ہے، لہٰذا حلال اور پاکیزہ اشیاء میں سے جو چاہو کھا سکتے ہو البتہ اسراف نہ کرنا۔ فرق یہ ہے کہ جنت میں بلا مشقت کھانے پینے کی چیزیں ملتی تھیں لیکن دنیا میں مشقت اور جستجو بھی کرنا ہوگی اور اسی مشقت اور جستجو ہی میں انسان کی آزمائش ہے۔ اس طرح تقدیر کا لکھا پورا ہو کے رہا۔ اب رہا قصہ اس جنت گم گشتہ کو پھر سے حاصل کرنے کا تو اس کے متعلق فرمایا کہ تمہارے پاس تمہاری رہنمائی کے لیے میرے رسول آتے رہیں گے جو تمہیں میری ہدایات اور میرے احکام بتلاتے رہیں گے۔ پھر جس شخص نے ان رسولوں کی پیروی کی، اللہ کی نافرمانیوں سے بچا رہا اور اپنی اصلاح کرلی تو اس کے لیے وہ جنت دوبارہ حاصل کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ نہ انہیں اپنے مسقتبل کے متعلق کوئی فکر دامن گیر ہوگی اور نہ انہیں دنیا میں گزاری ہوئی زندگی پر کچھ افسوس و ندامت ہوگی لیکن جن لوگوں نے رسولوں کو اور میرے احکامات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور شیطان کی طرح اکڑ بیٹھے تو ان کے دوبارہ جنت میں جانے کی کوئی صورت ممکن نہ ہوگی۔ مزید برآں اخروی زندگی میں ان کو ہمیشہ دوزخ میں جلنا اور دکھ کا عذاب سہنا ہوگا۔