وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ
اور (دیکھو) ہر امت کے لیے ایک ٹھہرایا ہوا وقت ہے سو جب کسی امت کا ٹھہرایا ہوا وقت آگیا تو پھر نہ تو ایک گھڑی پیچھے رہ سکتی ہے نہ ایک گھڑی آگے (جو کچھ اس کے لیے ہونا ہے ہو گزرتا ہے) (١٢)
[٣٤] ٭عذاب کے وقت میں تقدیم و تاخیر ناممکن ہے :۔ اس آیت میں تقدیم کا لفظ تاخیر ہی کی تاکید کے لیے لایا گیا ہے اجل جب آ گئی تو تقدیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی گاہک دکاندار سے کسی چیز کی قیمت پوچھنے کے بعد کہتا ہے کوئی کمی بیشی؟ تو دکاندار کہتا ہے قیمت میں نے پہلے ہی ٹھیک بتلائی ہے کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔ حالانکہ اس گفتگو میں گاہک اور دکاندار دونوں کا کمی بیشی کے لفظ سے مراد صرف کمی ہوتا ہے بیشی نہیں ہوتا اسی طرح یہاں بھی یہی مراد ہے کہ جب کسی شخص کی موت یا کسی قوم کے خاتمہ کا وقت آ جاتا ہے تو پھر اس میں قطعاً تاخیر نہیں ہو سکتی۔ قوم کی اجل کا وقت آتا کب ہے؟ اس کے لیے اللہ نے ایک ضابطہ مقرر کر رکھا ہے یعنی ہر قوم کے عروج و زوال کا ایک ضابطہ ہے جیسا کہ اقبال نے کہا ہے میں تجھ کو بتاتا ہوں کہ تقدیر امم کیا ہے۔۔ شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ جب کسی قوم (کے گناہوں) کا ڈول بھر جاتا ہے تو یہی وقت اس کی تباہی کا وقت ہوتا ہے اور اس کا تعلق مدت یا عرصے سے نہیں بلکہ فساد فی الارض اور گناہوں کی رفتار پر ہوتا ہے۔