يَا بَنِي آدَمَ لَا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ كَمَا أَخْرَجَ أَبَوَيْكُم مِّنَ الْجَنَّةِ يَنزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِيُرِيَهُمَا سَوْآتِهِمَا ۗ إِنَّهُ يَرَاكُمْ هُوَ وَقَبِيلُهُ مِنْ حَيْثُ لَا تَرَوْنَهُمْ ۗ إِنَّا جَعَلْنَا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ
(اور خدا نے فرمایا) اے اولاد آدم ! دیکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں اسی طرح بہکا دے جس طرح تمہارے ماں باپ کو بہکا کر جنت سے نکلوا دیا تھا اور ان کے لباس اتروا دیے تھے کہ ان کے ستر انہیں دکھا دیئے، وہ اور اس کا گروہ تمہیں اس طرح دیکھتا ہے کہ تم اسے نہیں دیکھتے۔ یاد رکھو ہم نے یہ بات ٹھہرا دی ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں رکھتے ان کے رفیق و مددگار شیاطین ہوتے ہیں۔
[٢٥] ٭شیطانی حملہ اور اس سے بچاؤ کے لئے ہدایات : اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو چند حقائق سے آگاہ فرمایا۔ ایک یہ کہ شیطان کے مکر و فریب سے ہوشیار رہیں وہ اگر تمہارے باپ کو مکر و فریب سے اور سبز باغ دکھا کر جنت سے نکلوا سکتا ہے تو تمہارے ساتھ وہ کیا کچھ نہیں کرسکتا اور دوسرے یہ کہ شیطان کا سب سے پہلا وار یہ ہوتا ہے کہ انسانوں کو فحاشی میں مبتلا کر دے بے حجابی کو عام کر دے اور تمہارے پردہ شرم و حیا کو تار تار کر دے تیسرے یہ کہ تمہارا دشمن تو تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے جبکہ تم اسے نہیں دیکھ سکتے اور ظاہر ہے کہ ایسا دشمن اپنے مد مقابل (انسان) پر وار اس وقت کرے گا جب وہ غفلت میں پڑا ہو اور اس کا یہ وار شدید تر ہوگا اور چوتھے یہ کہ اس کا وار صرف ان لوگوں پر چل سکے گا جو ایمان نہیں لاتے۔ کیونکہ ایمان لانے والے اور اللہ کی فرمانبرداری کرنے والے ایک ایسی ہستی کی پناہ میں آ جاتے ہیں جو خود تو ان شیطانوں کو دیکھتا ہے لیکن شیطان اسے نہیں دیکھ سکتے گویا معاملہ بالکل الٹ ہوجاتا ہے اور ایسے لوگوں پر شیطان کا حملہ بہت کم کارگر ہوتا ہے اور اگر کسی وقت وہ شیطان کے بہکاوے میں آ بھی جائیں تو اللہ سے معافی مانگ کر اور اس کے دامن میں پناہ لے کر شیطانی حملے کے اثر سے پاک صاف ہوجاتے ہیں۔