فَدَلَّاهُمَا بِغُرُورٍ ۚ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ ۖ وَنَادَاهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمْ أَنْهَكُمَا عَن تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُل لَّكُمَا إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمَا عَدُوٌّ مُّبِينٌ
غرض کہ شیطان (اس طرح کی باتیں سنا سنا کر بالآخر) انہیں فریب میں لے آیا، پھر جونہی ایسا ہوا کہ انہوں نے درخت کا پھل چکھا ان کے ستر ان پر کھل گئے اور (جب انہیں اپنی برہنگی دیکھ کر شرم محسوس ہوئی تو) باغ کے پتے اوپر تلے رکھ کر اپنے جسم پر چپکانے لگے۔ اس وقت ان کے پروردگار نے پکارا، کیا میں نے تمہیں اس درخت سے نہیں روک دیا تھا۔ اور کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ شطیان تمہارا کھلا دشمن ہے۔
[١٨] یعنی یہ نہیں ہوا کہ ادھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا اور سبز باغ دکھائے تو فوراً سیدنا آدم وحوا (علیہما السلام) اس درخت کا پھل کھانے کو تیار ہوگئے بلکہ وہ مدتوں ان باتوں کی یقین دہانی کراتا رہا کہ اگر تم نے یہ پھل کھالیا تو تم فی الواقع انسانیت سے ترقی کر کے فرشتوں کے درجہ پر پہنچ جاؤ گے۔ اس دوران وہ قسمیں بھی کھاتا رہا تاآنکہ وہ انہیں اس نافرمانی پر اکسانے کی کوشش میں کامیاب ہوگیا۔ [ ١٩] ٭حیا اور مقامات ستر کو ڈھانپنا انسانی فطرت میں داخل ہے : اس کا مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کا جذبہ اور اپنے مقامات ستر کو ڈھانپ کر رکھنا عورت اور مرد دونوں کی فطرت کے اندر داخل ہے پھل کھانے کی وجہ سے جب سیدنا آدم علیہ السلام و حوا (علیہ السلام) کا جنتی لباس چھن گیا تو سب سے پہلی فکر جو انہیں دامن گیر ہوئی وہ یہ تھی کہ اپنے مقامات ستر کو چھپائیں اور فوری طور پر کچھ نہ ملا تو جنت کے درختوں کے پتوں ہی کو ایک دوسرے پر یا اپنے بدن پر چسپاں کر کے اپنی شرمگاہوں کو چھپا دیا۔ اس آیت سے ان ’’محققین‘‘ کے بیان کی تردید ہوجاتی ہے جو انسانی تہذیب و تمدن کی داستان لکھنے بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان ابتداء ننگا رہا کرتا تھا اور مدتوں بعد اس نے لباس تیار کیا اور بدن ڈھانپنا سیکھا اور یہ وہی محققین ہیں جو انسان کو حیوان ہی کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہیں اور چونکہ حیوان اپنے مقامات ستر نہیں ڈھانپتے اس لیے انہوں نے سمجھ لیا کہ انسان بھی ابتداء ایسا ہی تھا۔ قرآن ان سب باتوں کی پر زور تردید کرتا ہے، وہ انسان کو ایک مستقل اور الگ مخلوق کی حیثیت دیتا ہے جو آدم (علیہ السلام) سے شروع ہوئی اور آدم (علیہ السلام) کا پتلا اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا، پھر اسے سنوارا اور بہت اچھی شکل و صورت بنائی، پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونک کر اسے باقی مخلوق سے افضل و برتر بنا دیا، پھر سیدنا آدم علیہ السلام کو نبوت عطا فرمائی لہٰذا وہ خالص موحد تھے جبکہ ہمارے ان محققین کا انسان ابتداء مظاہر پرست تھا وجہ یہ ہے کہ ان محققین کا سارا انحصار ظن و تخمین پر ہے۔ جب کہ وحی الٰہی ہمیں حقیقی علم عطا کرتی ہے۔