وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
اے آدم ! تو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو سہو اور جس جگہ سے جو چیز پسند آئے شوق سے کھاؤ، مگر دیکھو (وہ جو ایک درخت ہے تو) اس درخت کے قریب بھی نہ جانا، اگر گئے تو یاد رکھو تم زیادتی کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔
[١٦] ابلیس کو تو اللہ تعالیٰ نے جنت سے نکال دیا اور آدم (علیہ السلام) کے بعد اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے فرمایا کہ یہ جنت تمہارا مسکن ہے یہاں سے جو چا ہو اور جتنا چاہو کھاؤ پیو البتہ اس ایک درخت کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ یہ درخت کون سا تھا ؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی اور نہ اس کی ضرورت ہی تھی۔ اس حکم سے مقصود صرف آدم و حوا علیہما السلام کی آزمائش تھی کہ وہ کہاں تک اللہ کا یہ حکم بجا لاتے ہیں اور شیطان جو اپنی چھاتی پر ہاتھ مار کر کہتا ہے کہ میں آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا کیا یہ اس کی چالوں میں آتے ہیں یا نہیں؟