قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِي مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ
خدا نے فرمایا کس بات نے تجھے جھکنے سے روکا جب کہ میں نے حکم دیا تھا؟ کہا اس بات نے کہ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا، اسے مٹی سے۔
[١١]٭ آگ اور مٹی کے خواص کا تقابل : ابلیس کا گمان یہ تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے کیونکہ آگ لطیف ہوتی ہے اور مٹی کثیف۔ آگ نیچے سے اوپر کو اٹھتی ہے اور مٹی اوپر سے نیچے کو گرتی ہے آگ اپنی شکل اور رنگ بدل سکتی ہے مگر مٹی میں بغیر محنت شاقہ کے یہ صفت نہیں پائی جاتی اس ظاہری برتری کے بعد اگر نتیجہ دیکھیں تو آگ ہر چیز کو جلا کر فنا کردیتی ہے جبکہ مٹی سے نباتات یا ہر قسم کے پھل، غلے اور درخت پیدا ہوتے ہیں آگ کی طبیعت میں سرکشی ہے، مٹی کی طبیعت میں انکسار اور تواضع ہے۔ اسی آگ کی فطرت کی بنا پر ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کی اور تکبر کی راہ اختیار کی اور راندہ درگاہ الٰہی بن گیا اور آدم علیہ السلام سے اللہ کی نافرمانی ہوگئی تو اس نے گناہ کی معافی مانگ لی اور اللہ کے مقرب بن گئے۔ بعض علماء نے آگ اور مٹی کا تقابل کر کے انہیں وجوہ کی بنا پر مٹی کو آگ سے افضل قرار دیا ہے۔