سورة الانعام - آیت 144

وَمِنَ الْإِبِلِ اثْنَيْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَيْنِ ۗ قُلْ آلذَّكَرَيْنِ حَرَّمَ أَمِ الْأُنثَيَيْنِ أَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَيْهِ أَرْحَامُ الْأُنثَيَيْنِ ۖ أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ وَصَّاكُمُ اللَّهُ بِهَٰذَا ۚ فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا لِّيُضِلَّ النَّاسَ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اسی طرح اونٹوں کی بھی دو صنفیں (نر اور مادہ اللہ نے) پیدا کی ہیں، اور گائے کی بھی دو صنفیں۔ ان سے کہو کہ : کیا دونوں نروں کو اللہ نے حرام کیا ہے، یا دونوں مادہ کو؟ یا ہر اس بچے کو جو دونوں نسلوں کی مادہ کے پیٹ میں موجود ہو؟ کیا تم اس وقت خود حاضر تھے جب اللہ نے تمہیں اس کا حکم دیا تھا؟ (اگر نہیں، اور یقینا نہیں) تو پھر اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر اس لیے جھوٹ باندھے تاکہ کسی علمی بنیاد کے بغیر لوگوں کو گمراہ کرسکے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت تک نہیں پہنچاتا۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥٦] مشرکین کے حلت وحرمت کے عقائد کی عقلی ونقلی تردید :۔ یعنی کسی چیز کی تحقیق کے لیے شہادتیں ضروری ہیں اور یہ شہادت دو طرح کی ہوتی ہے ایک یقینی علم کی بنا پر شہادت، دوسرے آنکھوں دیکھی شہادت۔ اس سے پہلی آیت کے آخر میں ﴿نَبِّـــــُٔـوْنِیْ بِعِلْمٍ﴾ فرما کر علمی شہادت کی تردید فرمائی یعنی اللہ کی کسی کتاب سے یہ مشرک کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کرسکتے جس سے ان کی حلت و حرمت کے متعلق خود ساختہ پابندیوں کا جواز معلوم ہوتا ہو اور اس آیت کے آخر میں یہ فرما کر کہ ’’کیا تم اس وقت موجود تھے جب اللہ نے ایسا حکم دیا تھا۔‘‘ عینی شہادت کی تردید فرما دی۔ مطلب یہ ہے کہ مشرکوں کے یہ توہمات اور اختراعات جو عقائد میں شامل ہوچکے ہیں ایسے لغو ہیں جنہیں کسی طرح بھی معقول یا منجانب اللہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔