أَوَمَن كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَن مَّثَلُهُ فِي الظُّلُمَاتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا ۚ كَذَٰلِكَ زُيِّنَ لِلْكَافِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
ذرا بتاؤ کہ جو شخص مردہ ہو، پھر ہم نے اسے زندگی دی ہو، اور اس کو ایک روشنی مہیا کردی ہو جس کے سہارے وہ لوگوں کے درمیان چلتا پھرتا ہو (٥٤) کیا وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جس کا حال یہ ہو کہ وہ اندھیروں میں گھرا ہوا ہو جن سے کبھی نکل نہ پائے ؟ اسی طرح کافروں کو یہ سجھا دیا گیا ہے وہ جو کچھ کرتے رہے ہیں، وہ بڑا خوشنما کام ہے۔
[١٢٩] ایک کافر اور ایماندار کی مثال :۔ یہاں مردہ سے مراد روحانی طور پر مردہ ہے۔ یعنی ایک شخص پہلے کافر تھا پھر وہ اسلام لے آیا اور اسے وحی کے علم کی روشنی نصیب ہوئی۔ لوگوں میں رہ کر وہ اسی روشنی کے مطابق اپنی زندگی بسر کر رہا ہے اور دوسرا شخص کفر و شرک اور جہالت و ضلالت کی تاریکیوں میں ڈبکیاں کھا رہا ہے اور اسے ان تاریکیوں سے نکلنے کی کوئی راہ بھی نہیں مل رہی تو کیا ان دونوں کی حالت یکساں ہو سکتی ہے اور نکلنے کی راہ اس لیے نہیں ملتی کہ انہیں یہ تاریکیاں ہی روشنی معلوم ہونے لگتی ہیں اور ان کے برے کام انہیں بھلے معلوم ہونے لگتے ہیں ہر بدکاری میں انہیں مزہ آتا ہے اور ہر حماقت کو وہ تحقیق سمجھنے لگتے ہیں۔