سورة الانعام - آیت 104

قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرت کے سامان پہنچ چکے ہیں۔ اب جو شخص آنکھیں کھول کر دیکھے گا، وہ اپنا ہی بھلا کرے گا، اور جو شخص اندھا بن جائے گا، وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور مجھے تمہاری حفاظت کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی ہے۔ (٤٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٦] قرآن آپ نے کس سے سیکھا ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی معرفت کے لیے بہت سے ایسے دلائل ذکر کردیئے گئے ہیں کہ اگر کوئی شخص ان میں غور و فکر کرے گا تو یقیناً حقیقت کو پا لے گا اور اس میں اسی کا بھلا ہے۔ اور جو خود ہی کچھ نہیں سمجھنا چاہتا تو وہ خود ہی اس کا نقصان برداشت کرے گا۔ اس سے آگے یک لخت متکلم بدل گیا ہے پہلے سلسلہ کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا اور ’’میں تم پر محافظ نہیں‘‘ یہ جملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہے۔ اس طرح کی ضمائر کی تبدیلی کلام عرب میں بکثرت پائی جاتی ہے اور ایسے کلام کو اتنا ہی زیادہ فصیح شمار کیا جاتا ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے ہیں کہ جو لوگ ان بصیرت افروز دلائل میں غور و فکر کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے تو میرے ذمہ یہ ڈیوٹی نہیں کہ میں وہ دلائل ایسے لوگوں کو دکھا کے یہ سمجھا کے چھوڑوں۔