وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ
اور لوگوں نے جنات کو اللہ کے ساتھ خدائی میں شریک قرر دے لیا، (٣٩) حالانکہ اللہ نے ہی ان کو پیدا کیا ہے۔ اور مجھ بوجھ کے بغیر اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں تراش لیں۔ (٤٠) حالانکہ اللہ کے بارے میں جو باتیں یہ بناتے ہیں وہ ان سب سے پاک اور بالاوبرتر ہے۔
[١٠٣] اللہ کی اولاد کا عقیدہ :۔ اللہ تعالیٰ کی ان سب نشانیوں کے باوجود اور یہ جاننے کے باوجود کہ اللہ کے بغیر کوئی ہستی ان کے پیدا کرنے میں اس کی شریک نہیں۔ ان مشرکوں نے محض اپنے وہم و گمان سے یہ طے کرلیا کہ اتنی وسیع کائنات کا پورا نظام اکیلا اللہ کیسے سنبھال سکتا ہے۔ ضروری ہے کہ اس پورے نظام میں اور انسانوں کی قسمت کے بنانے اور بگاڑنے میں کئی دوسری پوشیدہ ہستیاں بھی شریک ہوں۔ کوئی بارش کا دیوتا ہے کوئی روئیدگی کا، کوئی پھلوں میں رس بھرنے کا، کوئی دولت کی دیوی ہے کوئی صحت کی اور کوئی مرض اور بیماریوں کی وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے لغو خیالات دنیا کی تمام مشرک قوموں میں پائے جاتے ہیں۔ بالعموم تمام ستارہ پرست قوموں کا یہی شیوہ رہا ہے جو ان ستاروں کی ارواح اور ان کی خیالی شکلوں کے مجسمے بناتی ہیں انہیں ارواح کو قرآن نے کہیں جن اور کہیں شیاطین کے الفاظ سے ذکر کیا ہے پھر ان لوگوں نے ان دیوی دیوتاؤں کی نسل چلا کر ایک پوری دیو مالا مرتب کردی۔ ہندی، مصری، یونانی اور بابلی تہذیبوں میں ایسی پوشیدہ ارواح کی پرستش کا عقیدہ بالعموم پایا جاتا رہا ہے انہیں دیوی اور دیوتاؤں میں سے بعض کو انہوں نے اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں قرار دے دیا۔ اہل عرب بھی فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ جواب دیا کہ جن تو اللہ کی مخلوق ہیں اور جو مخلوق ہو وہ بندہ اور غلام تو ہوسکتا ہے شریک نہیں بن سکتا اور اللہ کی جب بیوی ہی نہیں اور وہ اس سے بے نیاز بھی ہے تو پھر اس کے بیٹے اور بیٹیاں کیسے ہو سکتے ہیں؟