وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّامًا مَّعْدُودَةً ۚ قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللَّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللَّهُ عَهْدَهُ ۖ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
یہ لوگ (یعنی یہودی) کہتے ہیں جہنم کی آگ ہمیں کبھی چھونے والی نہیں (کیونکہ ہماری امت خدا کے نزدیک نجات پائی ہوئی امت ہے) اگر ہم آگ میں ڈالے بھی جائیں گے تو (اس لیے نہیں کہ ہمیشہ عذاب میں رہیں بلکہ) صرف چند گنے ہوئے دنوں کے لیے (تاکہ گناہ کے میل کچیل سے پاک صاف ہو کر پھر جنت میں جا داخل ہوں)۔ اے پیغمبر ان لوگوں سے کہہ دو یہ بات جو تم کہتے ہو تو (دو حالتوں سے خالی نہیں۔ یا تو) تم نے خدا سے (غیر مشروط) نجات کا کوئی پٹہ لکھا لیا ہے کہ اب وہ اس کے خلاف جا نہیں سکتا، اور یا پھر تم خدا کے نام پر ایک ایسی بات کہہ رہے ہو جس کے لیے تمہارے پاس کوئی علم نہیں
[٩٤] یہود کی عذاب اخروی کے متعلق غلط فہمی اور اس کا جواب :۔ یہودیوں کا عقیدہ یہ تھا کہ ہم چونکہ انبیاء کی اولاد اور اللہ کے محبوب ہیں لہٰذا ماسوائے چند دن کے انہیں دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی۔ ان کے اس باطل عقیدہ کا جواب اللہ تعالیٰ نے کئی طرح سے دیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ان سے پوچھو کہ اس عقیدہ کی اصل کیا ہے؟ کیا اللہ نے تم سے کوئی ایسا وعدہ لے رکھا ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو دکھاؤ تو سہی۔ یا بس تم اللہ پر ایسی ہی جھوٹی باتیں جڑ دیتے ہو؟ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ اے یہود! اگر تم فی الواقع اس دعوے میں سچے ہو کہ تم اللہ کے چہیتے ہو اور ماسوائے چند دن کے تمہیں دوزخ کی آگ چھو بھی نہیں سکے گی تو پھر تم مرنے کی آرزو کیوں نہیں کرتے یا بالفاظ دیگر ان دنیا کے جھنجٹوں سے نکل کر جنت میں جانے کی آرزو کیوں نہیں کرتے؟ اور چونکہ یہود مرنے کے لیے مطلقاً آمادہ نہیں بلکہ طویل مدت تک دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ یہود اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں اور تیسرا جواب انہیں یہ دیا گیا کہ اللہ کا قانون جزاء و سزا سب کے لیے یکساں ہے۔ یہاں نسبی رشتے کچھ کام نہیں آئیں گے جس شخص کو اس کی بداعمالیوں نے گھیر لیا وہ یقیناً دوزخ میں ہی جائے گا۔ پھر ہمیشہ اس میں رہے گا اور اس قانون میں اے یہود! تمہارے لیے کوئی تخصیص نہیں۔