الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ
(حقیقت تو یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہیں دیا (٣٠) امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے، اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔
[٨٥] ظلم معنی شرک :۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ پر بہت گراں گزری (کیونکہ انہوں نے ظلم کو اس کے عام معنوں، معصیت یا زیادتی پر محمول کیا تھا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے کبھی ظلم نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ یہاں ظلم کا لفظ اپنے خاص معنوں یعنی شرک کے معنی میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ سورۃ لقمان میں آیا ہے کہ لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ بیٹا کبھی شرک نہ کرنا کیونکہ شرک سب سے بڑا ظلم ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر، نیز کتاب الایمان باب ظلم دون ظلم نیز کتاب الانبیائ۔ باب قول اللہ تعالیٰ واتخذ اللہ ابراہیم خلیلا ) منکرین حدیث اور اہل قرآن کا ردّ:۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی زبان بھی اگرچہ عربی زبان تھی اور قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا تھا۔ تاہم بعض دفعہ انہیں آیت کا صحیح مفہوم سمجھنے میں دشواری پیش آجاتی تھی۔ اور یہی مطلب ہے ﴿وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ ﴾ کا۔ مگر مسلمانوں میں سے ہی بعض لوگ ایسے ہیں جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بے نیاز ہو کر محض لغت کی مدد سے قرآن کا مفہوم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اپنے اس نظریہ کا انجام سوچ لینا چاہیے اس آیت کے متعلق دو اقوال ہیں ایک یہ کہ یہ جملہ بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ہی قول ہے اور ان کی اس بحث کا حصہ ہے جو وہ اپنی قوم سے کر رہے تھے۔ کیونکہ اس سے پہلی آیت میں بھی امن و سلامتی کا ذکر ہے اور اس آیت میں بھی۔ اور یہ امن و سلامتی صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو شرک سے اجتناب کرتے ہیں اور دوسرا قول یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے جو ایک حقیقت کے طور پر یہاں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے قصہ کے درمیان بیان کردیا گیا ہے۔