وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ۚ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ ۚ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا ۗ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۗ أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ
اور (پھر یہ ہوا کہ) ان کی قوم نے ان سے حجت شروع کردی۔ (٢٩) ابراہیم نے (ان سے) کہا : کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں حجت کرتے ہو جبکہ اس نے مجھے ہدایت دے دی ہے ؟ اور جن چیزوں کو تم اللہ کے ساتھ شریک مانتے ہو، میں ان سے نہیں ڈرتا (کہ وہ مجھے کوئی نقصان پہنچا دیں گی) الا یہ کہ میرا پروردگار (مجھے) کچھ (نقصان پہنچانا) چاہے (تو وہ ہر حال میں پہنچے گا) میرے پروردگار کا علم ہر چیز کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ کیا تم پھر بھی کوئی نصیحت نہیں مانتے؟
[٨٣] نجوم پرست کی مخالفت :۔ اس قوم کے ہر ایک فرد کی رگ رگ میں یہ بات رچی ہوئی تھی کہ انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات انفرادی طور پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر بھی۔ پھر انہیں سیاروں کی ارواح کے خیالی مجسمے مندروں میں نصب کر کے ان کی پرستش کی جاتی تھی، انہیں نفع و نقصان کا مالک سمجھنے کی وجہ سے ان کے آگے نذریں اور قربانیاں پیش کر کے انہیں خوش رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اور اسی نظام سے ان کی سر سے پاؤں تک کی زندگی وابستہ ہوچکی تھی، ان کے سامنے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا ان تمام بتوں اور مجسموں سے بے زاری کا اظہار کرنا اور پوری قوم کو گمراہ قرار دینا بھڑوں کے چھتہ کو چھیڑنے کے مترادف تھا۔ لہٰذا پوری قوم کی آپ سے بحث وجدال اور مخالفت شروع ہوگئی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے انہیں برملا کہہ دیا کہ جن جن معبودوں کو تم اللہ کے اختیار و تصرف میں شریک سمجھ رہے ہو، میں ان سے کسی ایک کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ میں اپنی زندگی اور موت، صحت اور تندرستی، خوشحالی اور تنگدستی کا مالک صرف ایک اللہ کو سمجھتا ہوں۔ اور اس کے اختیارات میں کسی کو رتی بھر شریک نہیں سمجھتا۔