وَعِندَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۚ وَمَا تَسْقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِي ظُلُمَاتِ الْأَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِي كِتَابٍ مُّبِينٍ
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے وہ اس سے واقف ہے کسی درخت کا کوئی پتہ نہیں گرتا جس کا اسے علم نہ ہو، اور زمین کی اندھیریوں میں کوئی دانہ یا کوئی خشک یا تر چیز ایسی نہیں ہے جو ایک کھلی کتاب میں درج نہ ہو۔
[٦٣] غیب کی خبریں بتانے والے :۔ میں جو ظالموں پر عذاب آنے کی بات کرتا ہوں تو یہ بھی وحی الٰہی کی بنا پر کرتا ہوں۔ رہی یہ بات کہ وہ عذاب کب آئے گا اس کا مجھے کچھ علم نہیں الا یہ کہ اللہ مجھے اس سے آگاہ فرما دے کیونکہ غیب کے تمام تر وسائل و ذرائع صرف اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں جنہیں اس کے سوا کوئی نہیں جان سکتا اور اگر کوئی شخص غیب جاننے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے اور اللہ کی اس صفت کا منکر ہے اور جو شخص کسی غیب کی خبر دینے والے کی تصدیق کرتا ہے یا اس پر یقین رکھتا ہے وہ بھی برابر کا مجرم ہے جس پر درج ذیل احادیث شاہد ہیں۔ ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی عراف (غیب کی خبریں بتانے والے) کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھے اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔‘‘ (مسلم۔ باب السلام۔ باب تحریم الکہانۃ و اتیان الکھان) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص کسی کاہن کے پاس جا کر اس سے کچھ دریافت کرے، پھر اس کی تصدیق کرے تو اس نے اس چیز سے کفر کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی۔‘‘ (ابو داؤد باب الکھانت والتفسیر۔ باب النھی عن اتیان الکھان ) ٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نجومی کاہن ہے اور کاہن جادوگر ہے اور جادوگر کافر ہے‘‘ (بخاری کتاب المناقب۔ باب ایام الجاھلیۃ۔۔) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ ہی جانتا ہے (یعنی) قیامت کب آئے گی؟ وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے کہ ارحام میں کیا کچھ (تغیر و تبدل) ہوتا رہتا ہے۔ نیز کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کو کیا کرے گا اور نہ ہی وہ یہ جانتا ہے کہ وہ کس جگہ مرے گا۔ اللہ ہی ان باتوں کو جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اللہ تعالیٰ کے علم کی وسعت :۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ غیب کے سب علوم ایک مخصوص مقام پر خزانوں کی صورت میں سربمہر بند ہیں۔ اور مقفل ہیں اور ان تالوں کی چابیاں صرف اللہ کے پاس ہیں۔ اسی مقام پر ہر چیز کی مقادیر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے لکھ رکھی ہیں اسی مقام کو قرآن میں کسی جگہ لوح محفوظ (٨٥ : ٢٢) کسی جگہ ام الکتاب (٤٣ : ٤) کسی جگہ امام مبین (٢٦ : ١٢٧) کسی جگہ کتاب مکنون (٥٦ : ٧٨) اور کسی جگہ کتاب مبین فرمایا ہے اور سب اس مقام یا ان غیب کے خزانوں کے صفاتی نام ہیں۔ ان خزانوں تک ان خزانوں کے مالک حق سبحانہ کے علاوہ اور کسی کی رسائی ممکن نہیں گویا یہی لکھی ہوئی مقادیر تمام مخلوقات کا مبدا یا نقطہ آغاز ہیں۔ پھر ان خزانوں کی وسعت کو عام لوگوں کے ذہن نشین کرانے کے لیے اس کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی مثلاً اللہ ہی خشکی اور سمندروں کی سب اشیاء کو جانتا ہے خشکی میں جنگل بھی ہیں آبادیاں بھی، پہاڑ بھی، غاریں بھی۔ بے شمار درخت اور جڑی بوٹیاں بھی اور لاتعداد مخلوق حیوانات بھی اور انسان بھی اور سمندروں کی مخلوق تو اس سے بھی کہیں زیادہ ہے یہ تو اللہ تعالیٰ کے اجمالی علم سے متعلق تھا اور تفصیلی یہ ہے کہ وہ مثلاً کسی درخت کے پتوں تک انفرادی علم رکھتا ہے کہ اس کی نشوونما کیسے ہو رہی ہے اور کب وہ جھڑ کر اپنے درخت سے نیچے گر پڑے گا اسی طرح جو غلہ زمین سے پیدا ہو رہا ہے اس کے ایک ایک دانے کا اسے علم ہے۔ علاوہ ازیں وہ زمین کے اندر کی مخفی چیزوں تک کو جانتا ہے پھر وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کائنات میں اب تک کیا کچھ ہوچکا ہے اور آئندہ کیا کچھ ہونے والا ہے اور ان باتوں کے متعلق بھی وہ تفصیلی علم رکھتا ہے اجمالی نہیں گویا کتاب مبین یا لوح محفوظ ایسا نورانی تختہ ہے جس میں ازل سے کائنات کا نقشہ کھینچ دیا گیا ہے اسی کے مطابق اسی عالم میں واقعات ظہور پذیر ہو رہے ہیں اسی کے مطابق اس عالم کا خاتمہ ہوگا اور پھر روز آخرت قائم ہوگا۔ [٦٤] لکھی ہوئی تقدیر :۔ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ’’اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیریں آسمان و زمین سے پچاس ہزار سال پہلے لکھ لی تھیں جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب القدر۔ باب حجاج آدم و موسیٰ علیہ السلام)