قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ
(اے پیغمبر !) ان سے کہو : میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب کا (پورا) علم رکھتا ہوں، اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں (١٧) میں تو صرف اس وحی کی اتباع کرتا ہوں جو مجھ پر نازل کی جاتی ہے۔ کہو کہ : کیا ایک اندھا اور دوسرا بینائی رکھنے والا دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ پھر کیا تم غور نہیں کرتے؟
[٥٢] نبوت اور ولایت کے لئے جہلاء کے معیار :۔ انبیاء کا اصل کام یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ ایمان لائے ہیں انہیں جنت اور اللہ کے فضل و کرم اور اس کی رضامندی کی خوشخبری دیں اور جو لوگ ان نبیوں کا یا اللہ کی آیات کا انکار کردیں انہیں اللہ کے غضب اور دوزخ کی آگ سے ڈرائیں۔ مگر جاہل قسم کے لوگوں نے انبیاء اور خدا رسیدہ لوگوں کی صداقت جانچنے کے لیے کچھ الگ ہی معیار مقرر کر رکھے ہیں۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ایسے لوگوں سے خرق عادت امور صادر ہوں۔ وہ کچھ معجزات یا کرامات انہیں دکھائیں، انہیں ان کے دلوں کا حال بتائیں، آئندہ پیش آنے والے حالات سے انہیں مطلع کریں۔ ان کی نظر کرم سے ایک گنہگار فوراً ولی کے مقام پر پہنچ جائے۔ وغیرہ وغیرہ یہ تو ایجابی معیارہے اور سلبی معیار یہ ہوتا ہے کہ ایک خدا رسیدہ انسان کو تارک دنیا ہونا چاہیے اور جو انسان نکاح کرتا، کھاتا پیتا اور لذائذ دنیا سے لطف اندوز ہوتا ہے وہ بھلا خدا رسیدہ کیسے کہلا سکتا ہے وہ تو ہم جیسا طالب دنیا ہی ہوا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کے ایسے احمقانہ نظریات کی تردید کرتے ہوئے آپ کی زبان سے کہلوایا کہ نہ تو میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں کہ تمہیں تمہارے منہ مانگے معجزات دکھا سکوں اور تمہاری حاجات کو فوراً پورا کردیا کروں نہ ہی میں غیب جانتا ہوں کہ تمہیں بتا سکوں۔ یہ کہ چوری فلاں چور نے فلاں وقت کی تھی۔ یا اس وقت تم اپنے دل میں کیا سوچ رہے ہو۔ اور میں فرشتہ بھی نہیں کہ مجھے کھانے پینے، چلنے پھرنے، یا نکاح کی حاجت نہ ہو۔ میرے فرائض صرف یہ ہیں کہ ایمان لانے والوں کو خوشخبری دوں اور انکار کرنے والوں کو ڈراؤں اور ہر حال میں اپنی یہ ذمہ داری نبھانے کی کوشش کروں۔ [٥٣] ایک نبی اور عام آدمی میں فرق :۔ ہاں مجھ میں اور تم میں یہ فرق ضرور ہے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی آتی ہے جس سے مجھے یقینی علم حاصل ہوتا ہے اور بسا اوقات غیب کے پردے ہٹا کر مجھے مطلع بھی کردیا جاتا ہے اور پھر میں اس وحی کے مطابق اس کے تمام احکام کی پیروی بھی کرتا ہوں لیکن تمہیں ان سے کوئی چیز بھی میسر نہیں۔ تمہارے نظریات کی بنیاد محض تمہارے گمان ہیں۔ اب بتاؤ کہ میں اور تم یا ایک بینا اور نابینا برابر ہو سکتے ہیں؟ یا ایک راہ پانے والا اور دوسرا گمراہ یا ایک عالم اور دوسرا جاہل دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟