سورة الانعام - آیت 47

قُلْ أَرَأَيْتَكُمْ إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ بَغْتَةً أَوْ جَهْرَةً هَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الظَّالِمُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

کہو : ذرا یہ بتاؤ کہ اگر اللہ کا عذاب تمہارے پاس اچانک آئے یا اعلان کرکے، دونوں صورتوں میں کیا ظالموں کے سوا کسی اور کو ہلاک کیا جائے گا؟ (١٦)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٠] یکدم سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی علامات پہلے مطلقاً ظاہر نہ ہوں اور جہرۃ یا علانیہ سے مراد ایسا عذاب ہے جس کی علامات پہلے سے ظاہر ہونا شروع ہوجائیں۔ [٥١] اس جملہ کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ عذاب آنے کی اطلاع اللہ تعالیٰ انبیاء کو بذریعہ وحی دیتا ہے اور انہیں ہدایت کردی جاتی ہے کہ وہ اپنے پیرو کاروں کو ساتھ لے کر اس مقام سے نکل جائیں جہاں عذاب آنے والا ہو۔ اس طرح عذاب کی زد میں صرف ظالم ہی آتے ہیں۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ چونکہ عذاب ظالموں کے ظلم کی وجہ سے ہی آتا ہے۔ لہٰذا ظالموں کو چاہیے کہ بلاتاخیر توبہ کرلیں۔ اور عذاب الٰہی سے خود بھی بچ جائیں اور دوسروں کی ہلاکت کا بھی سبب نہ بنیں۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ اصل میں تباہی اور ہلاکت تو ظالموں کے لیے ہی ہے کہ مرنے کے بعد بھی انہیں دوزخ کا عذاب بھگتنا ہوگا اور صالح افراد تو موت کے بعد اللہ کے فضل و کرم کے مزید حقدار بن جائیں گے۔