سورة الانعام - آیت 38

وَمَا مِن دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَائِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُم ۚ مَّا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِن شَيْءٍ ۚ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور زمین میں جتنے جانور چلتے ہیں، اور جتنے پرندے اپنے پروں سے اڑتے ہیں، وہ سب مخلوقات کی تم جیسی ہی اصناف ہیں۔ ہم نے کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ پھر ان سب کو جمع کر کے ان کے پروردگار کی طرف لے جایا جائے گا۔ (١٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٣] یعنی سب جانداروں کو خواہ وہ حشرات الارض ہوں یا پرندے ہوں یا چرندے ہوں، اللہ کی طرف سے وحی ہوتی ہے جیسے تمہیں ہوتی ہے اور یہ سب انواع اللہ کے قوانین کی پابند ہیں اور اپنی فطری حدود سے سر مو تجاوز نہیں کرتیں اور نہ کرسکتی ہیں۔ ان سب جانداروں کو وحی کے ذریعہ وہ علوم سکھائے جاتے ہیں جو ان کی نوع کے لیے اور نوع کی بقا کے لیے کارآمد اور ضروری ہیں اور ان چیزوں سے منع کیا جاتا ہے جو ان کے لیے مضر ہیں۔ مثلاً گائے، بھینس اور بھیڑ بکری وغیرہ پر حرام ہے کہ وہ گوشت کھائیں اور اگر وہ اس جرم کا ارتکاب کریں گے تو اس کا انہیں ضرور نقصان پہنچے گا۔ اسی طرح شیر پر گھاس کھانا حرام اور گوشت کھانا فرض ہے۔ اس کا الٹ کرے گا تو سخت نقصان اٹھائے گا اور زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ شہد کی مکھیوں کو بذریعہ وحی سکھا دیا کہ وہ اس قسم کا گھر تیار کریں۔ پھر پھلوں اور پھولوں سے رس چوس کر شہد بنائیں اور بہرحال اپنی سردار مکھی یعسوب کی اطاعت کریں۔ الغرض ہر نوع کی طرف وحی کی جاتی ہے اور اس کی شریعت جداگانہ ہے۔ اب انسان کو جو قوت ارادہ و اختیار دی گئی ہے تو اس کے ساتھ ابتلاء و آزمائش بھی انسان ہی کے لیے ہے۔ انسان کی بہتری اور نجات اسی صورت میں ہے کہ وہ کسی حسی معجزہ کا مطالبہ کیے بغیر اپنے عقل و ارادہ سے کام لے کر دوسری انواع کی طرح اپنے آپ کو احکام الٰہی کا پابند بنا لے۔ [٤٤] جانوروں کا حشر :۔ اس آیت سے نیز ایک دوسری آیت ﴿ وَاِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ ﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ جانوروں کا بھی قیامت کے دن حشر ہوگا ان سے کفر و شرک اور ایمان و اعمال کا محاسبہ تو نہیں ہوگا مگر جو ظلم کسی جانور نے دوسرے پر زیادتی سے کیا ہوگا اس کا بدلہ ضرور دلایا جائے گا کیونکہ اتنی عقل انہیں بھی بخشی گئی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے دن تم سے حقداروں کے حق ادا کروائے جائیں گے حتیٰ کہ سینگ والی بکری سے بے سینگ والی بکری کا بدلہ دلوایا جائے گا۔‘‘ (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ۔ باب تحریم الظلم)