قُلْ أَغَيْرَ اللَّهِ أَتَّخِذُ وَلِيًّا فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ يُطْعِمُ وَلَا يُطْعَمُ ۗ قُلْ إِنِّي أُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ ۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ
کہہ دو کہ : کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو رکھوالا بناؤں؟ (اس اللہ کو چھوڑ کر) جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے، اور جو سب کو کھلاتا ہے، کسی سے کھاتا نہیں؟ کہہ دو کہ : مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ فرمانبرداری میں سب لوگوں سے پہل کرنے والا میں بنوں۔ اور تم مشرکوں میں ہرگز شامل نہ ہونا۔
[١٥] الٰہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت کسی کا محتاج نہ ہونا ہے :۔ یعنی اللہ کے حقیقی الٰہ ہونے کا ایک معیار تو یہ ہے کہ تمام کائنات کو اسی نے پیدا کیا ہے۔ کائنات کی تخلیق میں چونکہ کسی بھی دوسرے الٰہ کا حصہ نہیں لہذا وہ الٰہ نہیں ہو سکتا۔ اور دوسرا معیار یہ ہے کہ وہ سب دوسروں کو کھلاتا ہے لیکن خود کسی سے کچھ نہیں کھاتا۔ اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ جو کھانا کھاتا ہے وہ کبھی الٰہ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ کھانے کا محتاج ہے اور اللہ کھانے کا محتاج نہیں ہے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ دوسرے سب لوگ کھانے تک کے لیے اس کے دست نگر ہیں۔ یعنی جو محتاج ہے الٰہ نہیں ہو سکتا۔ حقیقی الٰہ وہی ہوسکتا ہے جو کسی کا دست نگر اور محتاج نہ ہو۔ اب دیکھئے مشرکوں نے جن جن کو اپنا خدا بنا رکھا ہے وہ ان بندوں کو رزق دینے کے بجائے الٹا ان سے رزق لینے کے محتاج ہیں کوئی فرعون خدائی کے ٹھاٹھ جما ہی نہیں سکتا جب تک اس کے بندے اسے ٹیکس اور نذرانے نہ دیں۔ نہ کسی صاحب قبر کی شان معبودیت قائم رہ سکتی ہے جب تک اس کے عقیدت مند اور پرستار اس کا مقبرہ تعمیر نہ کریں اور کسی دیوتا کا دربار خداوندی اس وقت تک سج ہی نہیں سکتا جب تک اس کے پجاری اس کا مجسمہ بنا کر کسی عالی شان مندر میں نہ رکھیں۔ گویا یہ سب مصنوعی الٰہ بے چارے خود اپنے بندوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ بس اللہ تعالیٰ ہی کی ذات وہ ذات ہے جو اپنے بل بوتے پر قائم ہے اسے کسی کی احتیاج نہیں بلکہ سب اسی کے محتاج ہیں اور یہی اس کے حقیقی الٰہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ لہذا اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔