مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
میں نے ان لوگوں سے اس کے س وا کوئی بات نہیں کہی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا، اور وہ یہ کہ : اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی پروردگار ہے اور تمہارا بھی پروردگار۔ اور جب تک میں ان کے درمیان موجود رہا، میں ان کے حالات سے واقف رہا۔ پھر جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ خود ان کے نگراں تھے، اور آپ ہر چیز کے گواہ ہیں۔
[١٦٨] انبیاء کو بھی غیب کا علم نہیں :۔ تو نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں خود بھی تیری بندگی اور عبادت کروں اور لوگوں سے بھی تیری ہی بندگی اور عبادت کراؤں اور اسے میں بجا لاتا رہا اور جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا اس وقت تک تو میں نے تیرے حکم کا پوری طرح دھیان رکھا البتہ میرے بعد کے حالات کا مجھے کچھ علم نہیں۔ بعد کے حالات تو تو ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں نے کب اور کس طرح یہ غلط روش اختیار کی تھی اور کیوں کی تھی؟ قیامت کے دن انبیاء کی اپنی امت کے اعمال سے بے خبری :۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطبہ کے دوران فرمایا ’’لوگو! تم اللہ کے سامنے ننگے پاؤں، ننگے بدن، بے ختنہ حشر (جمع) کیے جاؤ گے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ﴿کَمَا بَدَانَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُعِیْدُہُ وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فَاعِلِیْنَ﴾ تا آخر پھر فرمایا ’’سن لو! قیامت کے دن ساری خلقت میں سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو کپڑے پہنائے جائیں گے اور میری امت کے کچھ لوگ حاضر کیے جائیں گے جنہیں فرشتے بائیں طرف (دوزخ کی طرف) لے چلیں گے۔ میں کہوں گا پروردگار! یہ تو میرے صحابی (ساتھی) ہیں۔‘‘ جواب ملے گا : ’’آپ نہیں جانتے۔ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا کیا نئی باتیں (بدعتیں) نکالیں۔ اس وقت میں وہی کچھ کہوں گا جو اللہ کے نیک بندے،عیسیٰ علیہ السلام نے کہا (یعنی) جب تک میں ان لوگوں میں رہا ان کا حال دیکھتا رہا۔ پھر جب تو نے مجھے (دنیا سے) اٹھا لیا تو اس کے بعد تو ہی ان پر نگران تھا۔ جواب ملے گا جب سے تم ان سے جدا ہوئے اسی وقت سے یہ لوگ برابر ایڑیوں کے بل (اسلام سے) پھرتے رہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اس آیت اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کو غیب کا علم نہیں ہوتا مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالیٰ بتا دے۔ نیز یہ کہ انبیاء کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد انہیں اپنی امت کے اعمال کی خبر نہیں ہوتی۔