ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن يَأْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلَىٰ وَجْهِهَا أَوْ يَخَافُوا أَن تُرَدَّ أَيْمَانٌ بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ
اس طریقے میں اس بات کی زیادہ امید ہے کہ لوگ (شروع ہی میں) ٹھیک ٹھیک گواہی دیں یا اس بات سے ڈریں کہ ( جھوٹی گواہی کی صورت میں) ان کی قسموں کے بعد لوٹا کر دوسری قسمیں لی جائیں گی (جو ہماری تردید کردیں گے) اور اللہ سے ڈرو، اور (جو کچھ اس کی طرف سے کہا گیا ہے اسے قبول کرنے کی نیت سے) سنو۔ اللہ نافرمانوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
[١٥٦] ان آیات میں چند باتیں قابل ذکر ہیں جو یہ ہیں۔ (١) یہاں پہلی دفعہ شہداء کا جو ذکر آیا ہے وہ وصی کے معنوں میں آیا ہے یعنی وہ لوگ جن کو میت اپنا ترکہ حوالہ کر کے انہیں وصیت کرے (٢) غیر مسلموں کو صرف اس صورت میں وصی بنایا جا سکتا ہے جب مسلم وصی دستیاب نہ ہو رہے ہوں جیسے سفر میں اکثر ایسی ضرورت پیش آ جاتی ہے (٣) آئندہ کے لیے یہ قانون مقرر کردیا گیا کہ اگر وصی کے بیانات میں کچھ شک پڑجائے تو اس کے بعد ان سے اہل تر گواہوں کی شہادت کی بنا پر اوصیاء کی گواہی کو کالعدم بھی قرار دیا جا سکتا ہے لہٰذا انہیں چاہیے کہ گواہی ٹھیک ٹھیک دیا کریں تاکہ بعد میں رسوائی نہ ہو اور (٤) صحیح تر بات یہ ہے کہ وہ اپنی رسوائی سے ڈرتے ہوئے سچ بولنے کی بجائے اگر اللہ سے ڈر کر سچی گواہی دیں تو یہی بات زیادہ مناسب ہے۔