يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ حِينَ الْوَصِيَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ آخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَأَصَابَتْكُم مُّصِيبَةُ الْمَوْتِ ۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِن بَعْدِ الصَّلَاةِ فَيُقْسِمَانِ بِاللَّهِ إِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰ ۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَادَةَ اللَّهِ إِنَّا إِذًا لَّمِنَ الْآثِمِينَ
اے ایمان والو ! (٧٣) جب تم میں سے کوئی مرنے کے قریب ہو تو وصیت کرتے وقت آپس کے معاملات طے کرنے کے لیے گواہ بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ تم میں سے دو دیانت دار آدمی ہوں (جو تمہاری وصیت کے گواہ بنیں) یا اگر تم زمین میں سفر کر رہے ہو، اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے تو غیروں (یعنی غیر مسلموں) میں سے دو شخص ہوجائیں۔ پھر اگر تمہیں کوئی شک پڑجائے تو ان دو گواہوں کو نماز کے بعد روک سکتے ہو، اور وہ اللہ کی قسم کھا کر کہیں کہ ہم اس گواہی کے بدلے کوئی مالی فائدہ لینا نہیں چاہتے، چاہے معاملہ ہمارے کسی رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ نے ہم پر جس گواہی کی ذمہ داری ڈالی ہے، اس کو ہم نہیں چھپائیں گے، ورنہ ہم گنہگاروں میں شمار ہوں گے۔
[١٥٤] سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ بنو سہم کا ایک آدمی تمیم داری اور عدی کے ساتھ سفر پر نکلا اور یہ سہمی ایسی جگہ مر گیا جہاں کوئی مسلمان نہ تھا۔ تمیم داری اور عدی اس کا ترکہ لے کر آئے تو سہمی کے وارثوں نے اس میں ایک پیالہ نہ پایا جو چاندی کا تھا اور سونے سے مرصع تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم اور عدی سے قسم کھانے کو کہا اور وہ قسم کھا گئے کہ (پیالہ ان کے پاس نہیں) پھر وہ پیالہ بازار مکہ سے مل گیا۔ اور انہوں نے کہا کہ ہم نے تمیم داری اور عدی سے خریدا ہے۔ اب سہمی کے وارثوں سے دو شخص کھڑے ہوئے اور اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ یہ پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے اور یہ کہ ہماری گواہی ان دونوں سے زیادہ سچی ہے۔ یہ آیت اسی سلسلہ میں نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب قول اللہ تعالیٰ یٰاایہا الذین آمنوا شھادۃ۔۔ ) چوری کے پیالہ کا مقدمہ :۔ یہ واقعہ جو دور نبوی میں ہوا تھا اس کی کچھ تفصیل تو مندرجہ بالا حدیث میں آ گئی ہے تاہم اختصار کی وجہ سے کئی پہلو تشنہ رہ گئے ہیں جو ہم یہاں بیان کریں گے تاکہ بات پوری طرح سمجھ میں آ جائے۔ ہوا یہ تھا کہ بنو سہم کا ایک مسلمان، جس کا نام بدیل تھا۔ اپنے دو ساتھیوں تمیم اور عدی کے ساتھ، جو نصرانی تھے اور ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ شام کی طرف ایک تجارتی سفر پر روانہ ہوئے۔ بدیل وہاں شام جا کر بیمار پڑگیا جس سے اسے افاقہ ہوتا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس نے اپنا اثاثہ باندھا اور اپنے ان دونوں ساتھیوں کے حوالہ کردیا۔ اور تاکید کی کہ یہ سامان میرے وارثوں کے حوالہ کردیں۔ اس نے یہ عقلمندی کی کہ چپکے سے اپنے سامان کی ایک فہرست تیار کر کے سامان میں کسی محفوظ جگہ رکھ دی اور اپنے ساتھیوں کو اس کی خبر نہ کی۔ اس سامان میں ایک قیمتی پیالہ تھا جو چاندی کا تھا اور اس پر سونے کا پانی چڑھا ہوا اور نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ ان نصرانیوں نے اس کے مرنے کے بعد جب سامان دیکھا تو ان کی نیت میں فتور آ گیا اور یہ پیالہ سامان میں سے چرا لیا۔ جب وہ واپس آئے تو سامان بدیل کے ورثاء کے حوالہ کردیا اور پیالہ بازار میں کسی سنار کے پاس فروخت کردیا۔ ورثاء نے جب سامان کھولا تو اس میں سامان کی فہرست بھی ملی۔ اس کے مطابق سامان چیک کیا تو وہ قیمتی پیالہ ندارد تھا۔ انہوں نے سامان لانے والے ساتھیوں سے پوچھا کہ مرنے والے نے اپنی کوئی چیز فروخت تو نہیں کی تھی؟ ممکن ہے اسے بیماری کے علاج معالجہ کے لیے ضرورت پڑگئی ہو اور اس نے کچھ سامان بیچ ڈالا ہو؟ انہوں نے اس کا جواب نفی میں دیا۔ یہ تسلی کرلینے کے بعد ورثاء نے یہ مقدمہ عدالت نبوی میں پیش کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمیم اور عدی دونوں کو بلا کر بیان لیا تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں اس پیالہ کا کچھ علم نہیں اور قسمیں کھا کر اپنے بیان کی توثیق کی۔ اب چونکہ اس بات کا امکان تھا کہ سامان کی فہرست تیار کرنے کے بعد میت نے وہ پیالہ اپنی ضرورت سے بیچ دیا ہو اور شرعی شہادات پوری نہیں ہو رہی تھیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نصرانیوں کو بری قرار دے دیا۔ کچھ مدت بعد بدیل کے وارثوں نے وہی پیالہ ایک سنار کے پاس دیکھ لیا تو اس سے پوچھا کہ یہ پیالہ تم نے کہاں سے لیا ہے؟ اس نے کہا میں نے یہ تمیم اور عدی سے خریدا ہے۔ چنانچہ مدعی دوبارہ یہ مقدمہ آپ کی عدالت میں لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر نصرانیوں کو بلایا اور ان کے سامنے وارثوں میں سے دو گواہوں نے قسم اٹھا کر گواہی دی کہ یہ پیالہ ہمارے ہی آدمی کا ہے نصرانی اپنی قسم میں جھوٹے ہیں اور ہم اللہ سے ڈرتے ہوئے بالکل صحیح اور سچی گواہی دے رہے ہیں۔ یہ گواہیاں میت کے نہایت قریبی وارثوں کی تھیں جو مسلمان تھے۔ نیز یہ گواہیاں نماز عصر کے بعد قسم کے بعد مسجد میں ہوئی تھیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میت کے وارثوں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور نصرانیوں سے اس پیالہ کی قیمت (ایک ہزار درہم) میت کے وارثوں کو دلائی گئی۔ اس وقت یہ آیات نازل ہوئیں۔ پھر کچھ عرصہ بعد جب ان دونوں نصرانیوں میں سے تمیم نے اسلام قبول کرلیا تو اس نے اعتراف کیا کہ واقعی اس نے جھوٹی قسم کھائی تھی اور جو کچھ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تھا وہ درست تھا۔