وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا ۚ أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو کلام نازل کیا ہے، اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ، تو وہ کہتے ہیں کہ : ہم نے جس (دین پر) اپنے باپ دادوں کو پایا ہے، ہمارے لیے وہی کافی ہے۔ بھلا اگر ان کے باپ دادے ایسے ہوں کہ نہ ان کے پاس کوئی علم ہو، اور نہ کوئی ہدایت تو کیا پھر بھی (یہ انہی کے پیچھے چلتے رہیں گے؟)
[١٥٢] تقلید آباد کی مذمت :۔ تقلید آباء بھی دراصل شرک ہی کی ایک قسم ہے کیونکہ ایسی صورت میں اللہ اور رسول کے احکام کے مقابلہ میں دین آباء کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کی ابتدا یوں ہوتی ہے کہ ہر شخص فطرتاً اپنے بزرگوں سے اچھا گمان رکھتا ہے اور ان سے محبت کی بنا پر اس کا یہ گمان عقیدہ کی شکل اختیار کرجاتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہمارے بزرگ ہم سے بہت زیادہ نیک، عالم اور دین کو سمجھنے والے تھے۔ حالانکہ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ انبیاء کے علاوہ کوئی شخص معصوم نہیں ہوتا۔ اور ہر شخص سے دانستہ یا نادانستہ طور پر غلطی کا صدور ممکن ہے اور تقلید آباء کی صورت میں یہ غلطی نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے چنانچہ ہر عقیدہ اور عمل کی صحت معلوم کرنے کا صرف یہ طریقہ ہے کہ اسے کتاب و سنت پر پیش کیا جائے ورنہ محض تقلید آباء کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ گمراہی کی طرف دھکیل دے گی۔