مَا جَعَلَ اللَّهُ مِن بَحِيرَةٍ وَلَا سَائِبَةٍ وَلَا وَصِيلَةٍ وَلَا حَامٍ ۙ وَلَٰكِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۖ وَأَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ
اللہ نے کسی جانور کو نہ بحیرہ بنانا طے کیا ہے، نہ سائبہ، نہ وصیلہ اور نہ حامی (٧١) لیکن جن لوگوں نے کفر اپنایا ہوا ہے وہ اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں، اور ان میں سے اکثر لوگوں کو صحیح سمجھ نہیں ہے۔
[١٥١] بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، حام کی رسوم :۔ سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ ''بحیرہ'' وہ دودھ دینے والا جانور ہے جس کا دودھ بتوں کے نام پر روک دیا جائے کہ کوئی اس کا دودھ نہ دوہے۔ سائبہ وہ جانور ہے جسے بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اس پر کوئی نہ بوجھ لادتا نہ سواری کرتا (یعنی سانڈ) وصیلہ وہ اونٹنی ہے جو پہلی بار بھی مادہ جنے اور دوسری بار بھی ایسی اونٹنی کو بھی وہ بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور حام وہ نر اونٹ ہے جس کے نطفہ سے دس بچے پیدا ہوچکے ہوں۔ اسے بھی بتوں کے نام پر بطور سانڈ چھوڑ دیا جاتا تھا۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ دوزخ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹتا پھرتا ہے۔ سانڈ کی رسم سب سے پہلے اسی نے نکالی تھی۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) جس عمرو بن عامر خزاعی کا نام اس حدیث میں آیا ہے ایک دوسری روایت میں اس کا نام عمرو بن لحی خزاعی بھی مذکور ہے۔ یہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تقریباً تین سو سال پہلے مکہ کا فرمانروا بن گیا تھا۔ اس نے دین ابراہیمی میں بہت سی خرافات شامل کردیں۔ بہت سی حلال چیزوں کو حرام اور حرام چیزوں کو حلال کردیا۔ مکہ مکرمہ میں بت پرستی کو بھی اسی نے رواج دیا تھا۔ اور ہوتا یہ ہے کہ امراء و سلاطین یا بڑے لوگ بد رسمیں ایجاد کرتے ہیں اور ان کے زیر لوگ انہیں قبول اور پسند کرنے لگتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ یہی بد رسوم دین کا حصہ سمجھی جانے لگتی ہیں۔ مزید ستم ظریفی یہ تھی کہ ایسی مشرکانہ رسوم کی ایجاد تو ان کے بڑے بزرگ کرتے تھے مگر ان کے پچھلے اسے اللہ سے منسوب کردیتے کہ اللہ نے ایسا حکم دیا ہے اور جہلاء جن کی ہر معاشرہ میں عموماً اکثریت ہوتی ہے ان کے اس افتراء کو تسلیم کرلیتے تھے اس طرح ایسی رسوم رواج پا جاتی تھیں۔ اسی بات کی تردید میں اللہ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔