سورة المآئدہ - آیت 101

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے ایمان والو ! ایسی چیزوں کے بارے میں سوالات نہ کیا کرو جو اگر تم پر ظاہر کردی جائیں تو تمہیں ناگوار ہوں، اور اگر تم ان کے بارے میں ایسے وقت سوالات کرو گے جب قرآن نازل کیا جارہا ہو تو وہ تم پر ظاہر کردی جائیں گی۔ (٦٩) (البتہ) اللہ نے پچھلی باتیں معاف کردی ہیں۔ اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا بردبار ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٤٩] یعنی ایسے سوال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ کیا کرو جن میں نہ تمہارا کوئی دینی فائدہ ہو اور نہ دنیوی کیونکہ خواہ مخواہ سوال پوچھنے سے انسان کو نقصان ہی ہوتا ہے یا اس پر کوئی پابندی عائد ہوجاتی ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ کثرت سوال کی ممانعت :۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی باتیں پوچھیں کہ آپ کو برا معلوم ہوا۔ جب بہت سوال جواب ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اب جو چاہو پوچھتے جاؤ۔‘‘ ایک شخص (عبداللہ بن حذافہ، جسے لوگ متہم کرتے تھے) نے کہا : میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تیرا باپ حذافہ ہے۔‘‘ پھر دوسرا شخص (سعد بن سالم) کہنے لگا : یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ فرمایا’’تیرا باپ سالم ہے شیبہ کا غلام۔‘‘ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کے غصہ کو دیکھا تو کہنے لگے’’ یا رسول اللہ ! ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں‘‘ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب العلم۔ باب الغضب فی الموعظۃ والتعلیم اذا رای مایکرہ) ٢۔ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک شخص نے پوچھا : میرا باپ کہاں ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’دوزخ میں‘‘ (بخاری۔ کتاب الاعتصام۔ باب مایکرہ من کثرۃ السوال ) ٣۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بڑا قصور وار وہ مسلمان ہے جو ایک بات پوچھے جو حرام نہ ہو لیکن اس کے پوچھنے کی وجہ سے حرام ہوجائے۔‘‘ (حوالہ ایضاً) ٤۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا : بے فائدہ بک بک کرنے، زیادہ سوال کرنے، مال و دولت ضائع کرنے، ماؤں کو ستانے، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے، دوسروں کا حق دبانے سے۔ (بحوالہ ایضاً) ٥۔ ایک شخص (اقرع بن حابس) نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا حج ہر سال فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے۔ سائل نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں۔ اگر میں ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج واجب ہوجاتا (اور تم نباہ نہ سکتے)‘‘ اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) ٦۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو میں چھوڑوں یعنی اس کا ذکر نہ کروں تم بھی اس کا ذکر نہ کرو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے انبیاء سے اختلاف کرنے کی بنا پر تباہ ہوگئے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب توقیرہ و ترک اکثار سوالہ ممالا ضرورۃ الیہ۔۔ الخ) ٧۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کام سے میں تمہیں منع کروں اس سے باز رہو اور جس کام کا حکم دوں اسے جہاں تک ہو سکے بجا لاؤ کیونکہ تم سے پہلے لوگ زیادہ سوال کرنے اور اپنے پیغمبروں سے اختلاف کرنے کی وجہ سے تباہ ہوگئے۔ (مسلم حوالہ ایضاً) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ نے کچھ فرائض تم پر عائد کیے ہیں، انہیں ضائع نہ کرو (ٹھیک طرح سے بجا لاؤ) اور کچھ چیزیں حرام کی ہیں ان کے پاس نہ پھٹکو، کچھ حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو اور کچھ چیزوں کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے بغیر اس کے اس کو بھول لاحق ہو لہٰذا ان کی کرید نہ کرو۔ ‘‘ (بیہقی بحوالہ الموافقات للشاطبی اردو ترجمہ ج ١ ص ٢٩١)