كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
وہ جس بدی کا ارتکاب کرتے تھے، اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں کرتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا طرز عمل نہایت برا تھا۔
[١٢٥] برائی سے منع نہ کرنے والوں پر لعنت :۔ کسی معاشرہ میں جب کوئی برائی رواج پاتی ہے تو ابتدا ً چند ہی لوگ اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اگر ایسے لوگوں کا بروقت اور سختی سے محاسبہ کیا جائے تو وہ برائی رک بھی جاتی ہے لیکن اگر اس سلسلہ میں نرم گوشہ اختیار کیا جائے تو اس بدی کا ارتکاب کرنے والوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے اور ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے کہ اس بدی سے بچنے والے لوگ نہ صرف یہ کہ بدی کرنے والوں کو روکتے نہیں، بلکہ ان سے میل ملاپ رکھنے اور شیر و شکر بن کر رہنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے اور بدی عام پھیل جاتی ہے یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عذاب الٰہی نازل ہوتا ہے پھر اس عذاب سے نہ بدی کرنے والے بچتے ہیں اور نہ اس بدی سے اجتناب کرنے والے۔ اس آیت میں بتایا یہ گیا ہے کہ جس طرح بدی کا ارتکاب کرنا جرم ہے اسی طرح بدی سے نہ روکنا بھی جرم ہے اور جرم کے لحاظ سے دونوں برابر ہوتے ہیں اور اللہ کی لعنت یا عذاب الٰہی کا اثر اور نقصان دونوں کو یکساں پہنچتا ہے۔ برائی سے منع نہ کرنے والوں کی مثال :۔ ایسے تباہ ہونے والے معاشرہ کی مثال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بیان فرمائی جیسے ’’کچھ لوگوں نے جہاز میں سوار ہونے کے لیے قرعہ ڈالا اور قرعہ کی رو سے کچھ لوگ نچلی منزل میں بیٹھے اور کچھ اوپر والی منزل میں۔ نچلی منزل والوں کو پانی اوپر کی منزل سے حاصل کرنا پڑتا تھا جس سے اوپر کی منزل والے تنگ پڑتے تھے۔ اب نچلی منزل والوں نے اس کا حل یہ سوچا کہ کیوں نہ جہاز کے نچلے تختہ میں سوراخ کر کے پانی نیچے سمندر سے حاصل کرلیا جائے۔ پھر اگر نچلی منزل والے اور اوپر کی منزل والے دونوں مل کر ان سوراخ کرنے والوں کا ہاتھ نہ روکیں گے تو نچلے اور اوپر والے سب غرق ہوجائیں گے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب المظالم۔ ابو اب الشرکۃ ھل یقرع فی القسمۃ) اس حدیث کی رو سے بدی سے نہ روکنے والوں کا جرم بدی کرنے والے سے بھی زیادہ ثابت ہوتا ہے۔ نیز سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ’’جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھ نہ پکڑیں تو قریب ہے کہ اللہ کی طرف سے ان پر عام عذاب نازل ہو۔ ‘‘ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر۔ زیر آیت ٥ : ١٠١)