وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ ۚ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ۚ وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ
اور ہم نے اس (تورات میں) ان کے لیے یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت۔ اور زخموں کا بھی (اسی طرح) بدلی لیا جائے۔ ہاں جو شخص اس (بدلے) کو معاف کردے تو یہ اس کے لیے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا۔ اور جو لوگ اللہ کے نازل کیے ہوئے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کریں، وہ لوگ ظالم ہیں۔ (٣٩)
[٨٢] سابقہ شریعتوں کے احکام شریعت محمدی میں :۔ یہاں ایک بنیادی بات یاد رکھنا چاہیے کہ کوئی حکم جو تورات میں یہود کو دیا گیا ہو اور قرآن اس کو یوں بیان کرے کہ اس میں کسی ترمیم و تنسیخ کا ذکر نہ کرے اور نہ ہی آپ نے نکیر فرمائی ہو تو وہ حکم بعینہ ہو تو وہ حکم مسلمانوں کے لیے بھی قابل عمل ہوگا اگرچہ قرآن اسے مسلمانوں کے لیے الگ سے بیان کرے یا نہ کرے اس کی ایک مثال تو یہی آیت ہے اور دوسری مثال رجم کا حکم ہے اور اس آیت میں قصاص کی جو صورت بیان ہوئی ہے احادیث اسی کی تائید و تشریح کرتی ہیں چنانچہ درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے۔ ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی نے ایک مسلمان لڑکی کا جو زیور پہنے ہوئے تھی۔ محض زیور حاصل کرنے کے لیے سر کچل دیا۔ اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ کس نے اس کا سر کچلا ؟ فلاں نے یا فلاں نے؟ یہاں تک کہ جب قاتل یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے سر کے اشارے سے بتایا 'ہاں' وہ یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا۔ اس نے جرم کا اقرار کرلیا تو آپ نے بھی دو پتھروں کے درمیان اس کا سر رکھ کر کچلوا دیا۔ (مسلم۔ کتاب القسامہ۔ باب ثبوت القصاص فی القتل بالحجر) (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب سوال القاتل حتی یقرو الاقرار فی الحد۔ باب اقاد بحجر) ٢۔ سیدنا یعلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک جنگ میں گیا۔ وہاں ایک شخص نے دوسرے کو دانت سے کاٹا۔ اس نے زور سے اپنا ہاتھ کھینچا تو کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا۔ پھر وہ قصاص کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصاص باطل قرار دیا اور فرمایا ’’کیا وہ اپنا ہاتھ تیرے منہ میں رہنے دیتا کہ تو اسے یوں چبا جائے جیسے اونٹ چبا ڈالتا ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الدیات۔ باب اذا عض رجلا۔۔) ٣۔ احکام قصاص :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جان کی دیت سو اونٹ ہیں۔‘‘ (نسائی۔ کتاب القسامۃ والقود الدیۃ۔ باب ذکر حدیث عمر و بن حزم فی العقول) ٤۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری پھوپھی ربیع بنت نضر نے ایک انصاری لڑکی کا دانت توڑ ڈالا۔ لڑکی کے وارثوں نے قصاص کا مطالبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مقدمہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصاص کا حکم دے دیا۔ انس بن نضر رضی اللہ عنہ جو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے چچا (اور ربیع کے بھائی) تھے کہنے لگے ’’یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم ایسا کبھی نہ ہوگا کہ ربیع کا دانت توڑا جائے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انس (یہ کیا کہہ رہے ہو) قصاص تو اللہ کا حکم ہے‘‘ پھر (اللہ کی قدرت کہ) لڑکی کے وارث قصاص کی معافی اور دیت لینے پر راضی ہوگئے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں کہ (اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے) قسم کھا بیٹھیں تو اللہ ان کی قسم سچی کردیتا ہے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ نیز کتاب الدیات۔ باب السن بالسن۔ مسلم کتاب القسامۃ) ٥۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص قتل ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قاتل کو مقتول کے وارث کے حوالہ کردیا۔ قاتل کہنے لگا ’’یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم! میرا قتل کا ارادہ نہ تھا۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے وارث سے فرمایا ’’اگر قاتل (اپنے بیان میں) سچا ہے اور تو نے اسے قتل کردیا تو تو دوزخ میں جائے گا۔‘‘ چنانچہ وارث نے اسے چھوڑ دیا۔ (ترمذی۔ ابو اب الدیات۔ باب ماجاء فی حکم ولی القتیل فی القصاص والعفو) [٨٣] قصاص میں یہودی قبائل کی ایک دوسرے پر برتری کا تصور :۔ مدینہ میں یہود کے تین قبائل آباد تھے۔ بنو قینقاع۔ بنو نضیر اور بنو قریظہ۔ ان میں سے بنو نضیر اور بنو قریظہ کی آپس میں چپقلش رہتی تھی۔ بنو نضیر طاقتور اور مالدار تھے اور بنو قریظہ ان کی نسبت کافی کمزور تھے اسی وجہ سے ان کے درمیان رسم یہ چل نکلی تھی کہ اگر بنو قریظہ کے ہاتھوں بنو نضیر کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تو اس کے بدلے بنو نضیر بنو قریظہ سے دوگنا دیت وصول کرتے تھے جبکہ خود اس سے نصف دیتے تھے اس طرح وہ تورات کے دو حکموں کی خلاف ورزی کرتے ایک یہ کہ تورات میں قصاص کا قانون تو تھا لیکن دیت کا نہیں تھا۔ دوسرے بنو نضیر کے خون کی دیت بنو قریظہ کے خون کی دیت سے دوگنا تھی۔ ایک دفعہ بنو نضیر کا ایک آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کے ہاتھوں قتل ہوگیا تو انہوں نے دوگنی دیت کا مطالبہ کردیا۔ بنو قریظہ نے جواب دیا کہ اب وہ وقت گئے جب تم ہم سے دگنی دیت وصول کیا کرتے تھے۔ اب ہم یہ مقدمہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدالت میں پیش کریں گے۔ کیونکہ یہود آپ کو جھوٹا نبی کہنے کے باوجود یہ یقین رکھتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں گے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم الٰہی کے مطابق برابر دیت کا فیصلہ دیا۔ [٨٤] قرآن کریم کے الفاظ ﴿فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ﴾ کے دو مطلب ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ اگر مجروح جارح کو معاف کر دے تو اس کا یہ معافی دینا اس کے اپنے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ اور دوسرا یہ کہ مجروح کا معافی دینا جارح کے جرم کا کفارہ بن جائے گا اور ان دونوں کو ملانے سے مطلب یہ نکل سکتا ہے کہ مجروح کا معاف کردینا جارح کے جرم کا بھی کفارہ بن جاتا ہے اور مجروح کے اپنے گناہوں کا بھی۔