سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۚ فَإِن جَاءُوكَ فَاحْكُم بَيْنَهُمْ أَوْ أَعْرِضْ عَنْهُمْ ۖ وَإِن تُعْرِضْ عَنْهُمْ فَلَن يَضُرُّوكَ شَيْئًا ۖ وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُم بَيْنَهُم بِالْقِسْطِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ
یہ کان لگا لگا کر جھوٹی باتیں سننے والے، جی بھر بھر کر حرام کھانے والے ہیں۔ (٣٦) چنانچہ اگر یہ تمہارے پاس آئیں تو چاہے ان کے د رمیان فیصلہ کردو، اور چاہے ان سے منہ موڑ لو (٣٧) اگر تم ان سے منہ موڑ لو گے تو یہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، اور اگر فیصلہ کرنا ہو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
[٧٧] ان لوگوں کے خبث باطن کی دیگر وجوہات کے علاوہ دو وجوہ یہ بھی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مسلمانوں کی اور آپ کی مجالس میں آتے ہی اس لیے ہیں کہ یہاں سے جو کچھ سنیں اسے اپنے لفظوں میں ڈھال کر اور توڑ موڑ کر اس طرح پیش کریں جس سے انہیں مسلمانوں کو اور پیغمبر اسلام کو بدنام اور رسوا کرنے کا موقع ہاتھ آئے۔ اور دوسری وجہ یہ کہ وہ حرام خور ہیں اور حرام خوری کے اثرات جو نفس انسانی پر مترتب ہوتے ہیں وہ اس قدر قبیح اور گندے ہوتے ہیں کہ ایسے شخص کی نہ عبادت قبول ہوتی ہے اور نہ دعا۔ [٧٨] گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اختیار تو دے دیا گیا کہ چاہے تو یہودیوں کے باہمی تنازعات کا فیصلہ کریں اور چاہے تو نہ کریں۔ لیکن اگر کرنا چاہو تو پھر انصاف کے ساتھ ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اس آیت سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ مقدمہ خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائے تھے۔ کچھ لوگ تو مقدمہ لانے والے تھے اور کچھ پیچھے بیٹھے ہدایات دینے والے تھے کہ اگر فیصلہ ایسے ہوا تو مان لینا ورنہ نہ ماننا۔ تاہم مسلم کی درج ذیل روایت میں اس بات میں اختلاف ہے کہ آپ کے پاس یہ مقدمہ کی صورت میں آیا تھا۔ زانی یہودی اور یہودن کا مقدمہ :۔ براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یہودی نکلا جس کا منہ کالا کیا گیا تھا اور کوڑے مارے گئے تھے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بلایا اور ان سے پوچھا ’’کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا 'ہاں' پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علماء میں سے ایک آدمی کو بلایا اور اسے فرمایا ’’میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں جس نے موسیٰ پر تورات نازل کی تھی، بتاؤ کیا تم اپنی کتاب میں زانی کی یہی سزا پاتے ہو؟‘‘ اس نے کہا 'نہیں۔' اور اگر آپ مجھے اللہ کی قسم نہ دیتے تو میں آپ کو نہ بتلاتا (بات یہ ہے کہ) ہم تورات میں رجم کی سزا ہی پاتے ہیں مگر جب ہمارے شرفاء میں زنا کی کثرت ہوگئی تو جب ہم کسی شریف کو پکڑتے تو اسے چھوڑ دیتے اور کمزور کو پکڑتے تو اس پر حد جاری کرتے۔ پھر ہم نے آپس میں کہا کہ ایسی سزا پر متفق ہوجائیں جسے شریف اور رذیل سب پر نافذ کرسکیں تو ہم نے کوڑے مارنا اور منہ کالا کرنا نافذ کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے اللہ ! سب سے پہلے میں تیرے اس حکم کو زندہ کرتا ہوں جبکہ ان لوگوں نے اس کو مردہ کردیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا اور وہ رجم کیا گیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی ﴿ یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْلُ لَا یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ ....﴾ ’’یہودی کہا کرتے، محمد کے پاس چلو۔ اگر وہ تمہیں منہ کالا کر کے کوڑے مارنے کا حکم دے تو اسے قبول کرلو اور اگر رجم کرنے کا فتویٰ دے تو بچو۔ تب یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ ﴾۔۔ (مسلم۔ کتاب الحدود۔ باب رجم الیہود اہل الذمۃ فی الزنی ) اس حدیث میں یہود کے جس عالم کا ذکر ہے۔ بعض دوسری روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابن صوریا تھا۔ فدک کا رہنے والا تھا۔ اور اسے تورات کا سب سے بڑا عالم سمجھا جاتا تھا۔ اور تمام یہودیوں کے ہاں وہ قابل اعتبار و قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا جس نے صحیح صورت حال کو کھول کر بیان کردیا۔