يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسِيلَةَ وَجَاهِدُوا فِي سَبِيلِهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کے لیے وسیلہ تلاش کرو (٢٩) اور اس کے راستے میں جہاد کرو (٣٠) امید ہے کہ تمہیں فلاح حاصل ہوگی۔
[٦٨] وسیلہ کی تعریف اور اس کی تلاش :۔ جو بھی ذریعہ یا سبب اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اختیار کیا جائے اسے وسیلہ کہتے ہیں اور وسیلہ کی دو ہی جائز صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی زندہ شخص کو اپنی دعا کی قبولیت کے لیے وسیلہ بنایا جائے اور اس کی دلیل درج ذیل حدیث ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب قحط پڑتا تو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے وسیلے سے دعا کرتے اور کہتے : یا اللہ پہلے ہم تیرے پاس اپنے پیغمبر کا وسیلہ لایا کرتے تو تو پانی برساتا تھا۔ اب اپنے پیغمبر کے چچا کا وسیلہ لائے ہیں، ہم پر بارش برسا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر بارش ہوجاتی۔ (بخاری کتاب الاستسقائ۔ باب سوال الناس الامام) اور دوسری صورت اپنے ہی نیک اعمال کو وسیلہ بنانا ہے۔ اور اس کی دلیل وہ طویل حدیث ہے جو بخاری میں بھی متعدد مقامات پر مذکور ہوئی ہے کہ بنی اسرائیل کے تین شخص ایک دفعہ سفر میں جاتے ہوئے طوفان باد و باراں میں گھر گئے تو ایک غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے ایک بڑا پتھر پہاڑ کے اوپر سے لڑھکتا آیا جس نے غار کا منہ بند کردیا اور اب وہ تینوں اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے۔ انہوں نے سوچا کہ اس وقت صرف اللہ سے دعا ہی کام آ سکتی ہے لہٰذا ہم میں سے ہر شخص اپنے کسی ایسے نیک عمل کا واسطہ دے کر اللہ سے دعا کرے جو اس نے خالصتاً اللہ کی رضامندی کے لئے کیا ہو۔ چنانچہ پہلے شخص نے اپنے عمل کا واسطہ دے کر دعا کی تو تیسرا حصہ پتھر غار کے منہ سے سرک گیا۔ پھر دوسرے نے دعا کی تو پتھر مزید تیسرا حصہ سرک گیا۔ پھر تیسرے نے اپنے عمل کے وسیلہ سے دعا کی تو سارا پتھر غار کے منہ سے ہٹ گیا اور وہ باہر نکل آئے۔۔ (بخاری۔ کتاب البیوع۔ باب من اشتری شیا لغیرہ نیز کتاب الاجارات۔ باب من استاجرا جیرا۔ نیز کتاب ابو اب الحرث والمزارعۃ وما جاء فیہ باب اذا زرع بمال قوما بغیر اذنھم) مگر ہمارے ہاں وسیلہ پکڑنے کا بہت غلط مفہوم رائج ہوچکا ہے۔ (تفصیل کے لئے دیکھئے سورۃ بنی اسرائیل کا حاشیہ نمبر ٧٠ اور سورۃ زمر کا حاشیہ نمبر ٩٤۔) نیز وسیلہ جنت میں عرش رحمان کے نزدیک ایک مقام کا نام بھی ہے۔ اذان کے بعد جو دعا سکھائی گئی ہے اس میں ہر مسلمان رسول اللہ کے لیے دعا مانگتا ہے کہ یا اللہ آپ کو وسیلہ عطا فرما۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص میرے لیے وسیلہ کی دعا کرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (بخاری۔ کتاب الاذان۔ باب الدعاء عندالنداء ) [٦٩] اصل وسیلہ اللہ کی راہ میں جہاد ہے :۔ یعنی اخروی کامیابی کے لیے بہترین وسیلہ تو جہاد ہے اور یہ بھی دوسری صورت ہی کی ایک قسم ہے جہاد کی سب سے اعلیٰ قسم قتال فی سبیل اللہ ہے تاہم جہاد انسان کی ہر اس کوشش کو بھی کہہ سکتے ہیں جو اسلام کی اشاعت اور اسلامی نظام کے قیام میں ممد و معاون ثابت ہو سکے یا اس راہ کی رکاوٹوں کو دور کرنے والی ہو خواہ یہ زبان سے ہو، تحریری ہو یا ہاتھ سے کی جائے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ منکرات کے خلاف جہاد :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ نے جس نبی کو بھی اس کی امت میں مبعوث فرمایا تو اس کے کچھ حواری اور اصحاب ہوتے جو اس کی سنت پر کاربند اور اس کے حکم پر چلتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے ناخلف آتے کہ جو کچھ وہ کہتے تھے کرتے نہیں تھے اور ایسے کام کرتے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ اب جو کوئی ایسے لوگوں سے ہاتھ سے جہاد کرے، وہ مومن ہے اور جو زبان سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اور جو دل سے جہاد کرے (برا سمجھے) وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد رائی کے دانہ برابر بھی ایمان نہیں۔‘‘ (مسلم کتاب الایمان) جہاد کا ہدف سب سے پہلے اپنا نفس ہونا چاہیے پھر اقرباء پھر درجہ بدرجہ دوسرے لوگ۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ’’تم میں سے کوئی شخص جب کوئی برا کام ہوتے دیکھے تو اسے چاہیے کہ بزور بازو اس میں تبدیلی لائے۔ اور اگر ایسا نہ کرسکے تو پھر زبان سے (تقریر سے یا تحریر سے) اس میں تبدیلی لائے اور اگر یہ بھی نہ کرسکے تو پھر کم از کم دل ہی میں برا سمجھے اور یہ ایمان کا کمزور تر درجہ ہے۔‘‘ (مسلم۔ حوالہ ایضاً)