وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاءَ وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا وَآتَاكُم مَّا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ
اور اس وقت کا دھیان کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ : اے میری قوم ! اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر نازل فرمائی ہے کہ اس نے تم میں نبی پیدا کیے، تمہیں حکمران بنایا، اور تمہیں وہ کچھ عطا کیا جو تم سے پہلے دنیا جہان کے کسی فرد کو عطا نہیں کیا تھا۔
[٥١] بنی اسرائیل کے انبیاء جو بادشاہ بھی تھے :۔ بنی اسرائیل مصر میں نہایت ذلت سے غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو انہیں عظیم سلطنت بھی عطا فرمائی تھی۔ مصر اور اس کے گرد و نواح کے ممالک میں آپ ہی کی فرمانروائی تھی اس زمانہ میں بنی اسرائیل کو عزت سے زندگی بسر کرنا نصیب ہوئی اور دینی اور دنیوی قیادت سب کچھ ان کے ہاتھ میں تھا، لیکن بعد میں اپنی نافرمانیوں کی بنا پر وہ عزت ان سے چھین لی گئی تاآنکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام جس وقت مبعوث ہوئے تو بنی اسرائیل مصر میں لاکھوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود فرعون کے تحت محکومانہ اور نہایت ذلت کی زندگی گزار رہے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام آئے تو انہوں نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلائی۔ اس دور میں بنی اسرائیل کے یہ غلامانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ حاکم قوم کی دیکھا دیکھی گؤ سالہ پرستی میں مبتلا ہوچکے تھے۔ خدائے واحد کی پرستش کا تصور ہی ان کے ذہنوں سے نکل چکا تھا اور غضب یہ کہ ان کے دلوں میں بچھڑے کی پرستش اور اس دین سے محبت یوں گھر کرچکی تھی جیسا کہ اللہ تعالیٰ سے ہونا چاہیے تھی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تھی اللہ تعالیٰ نے ان کا یہ قصور بھی معاف کردیا۔ پھر ان میں سیدنا داؤد علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام مبعوث کیے جنہیں اللہ تعالیٰ نے بادشاہی بھی عطا کی تھی۔