لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ۗ وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ اللہ ہی مسیح ابن مریم ہے وہ یقینا کافر ہوگئے ہیں۔ (اے نبی ! ان سے) کہہ دو کہ اگر اللہ مسیح ابن مریم کو اور ان کی ماں کو اور زمین میں جتنے لوگ ہیں ان سب کو ہلاک کرنا چاہے تو کون ہے جو اللہ کے مقابلے میں کچھ کرنے کی ذرا بھی طاقت رکھتا ہو؟ تمام آسمانوں اور زمین پر اور ان کے درمیان جو کچھ موجود ہے اس پر تنہا ملکیت اللہ ہی کی ہے۔ وہ جو چیز چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر پوری پوری قدرت رکھتا ہے۔
[٤٥] نصاریٰ کا قول کہ عیسیٰ ہی عین اللہ ہے اور اس کا رد :۔ یہ کافر لوگ عیسائی یا نصاریٰ ہیں جنہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کی بشریت میں الوہیت کو ضم کرنے کی کوشش کی۔ یہ انداز فکر چونکہ سراسر گمراہی اور شرک پر مبنی تھا۔ اس لیے گمراہی کی کئی راہیں پیدا ہوگئیں۔ ایک فرقے نے الوہیت کے پہلو کو نمایاں کیا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے جسم میں حلول کر گیا لہٰذا وہ اللہ تعالیٰ کا عین ہے یا عین اللہ تعالیٰ ہے اور جنہوں نے بشریت کے پہلو کو نمایاں کیا انہوں نے کہا کہ عیسیٰ عین اللہ تو نہیں البتہ ابن اللہ ضرور ہیں۔ اور جنہوں نے درمیانی تیسری گمراہی کی راہ اختیار کی انہوں نے کہا کہ اللہ ایک نہیں بلکہ تین ہیں اور تینوں ہی ازلی ابدی ہیں۔ ایک اللہ دوسرے عیسیٰ علیہ السلام اور تیسرے روح القدس پھر یہ تین مل کر بھی ایک الہ بنتا ہے۔ پھر مدتوں بعد سیدہ مریم کو بھی الوہیت میں شریک سمجھا جانے لگا (وغیرہ من الخرافات ) [٤٢] عیسائی حضرات عیسیٰ علیہ السلام اور سیدہ مریم علیہا السلام دونوں کو الوہیت میں شریک بناتے ہیں جبکہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اپنے آپ کو (بقول نصاریٰ) صلیب پر چڑھنے سے اور سیدہ مریم علیہاالسلام یہود کی تہمت سے اپنے آپ کو بچا نہ سکے تو پھر ان کی الوہیت کیسی تھی؟ اور اگر اللہ ان دونوں کو اور ان کے علاوہ جتنے بھی انسان اس زمین پر موجود ہیں سب کو آن کی آن میں نیست و نابود کر دے تو کوئی ہے جو اس کا ہاتھ پکڑ سکے؟ کیونکہ ان تمام چیزوں کا خالق بھی اللہ تعالیٰ ہے اور مالک بھی وہی ہے۔ اور مالک کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ملکیت کی چیز میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ [٤٧] یعنی اس نے عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا کیا اور حوا کو ماں کے بغیر اور سیدنا آدم علیہ السلام کی وساطت سے پیدا کیا اور سیدنا آدم علیہ السلام کو ماں اور باپ دونوں کے بغیر پیدا کیا اور چوتھی اور سب سے عام شکل یہ ہے کہ وہ مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا کرتا ہے اور وہ ہر طرح سے پیدا کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ [٤٨] یہود ونصاری کا یہ قول کہ ہم اللہ کے بیٹے اور چہیتے ہیں :۔ یعنی وہ سزا جو انہیں اس دنیا میں ہی مل رہی ہے اگر وہ فی الواقع اللہ کے محبوب ہیں تو یہ سزا اور رسوائی کیوں ہو رہی ہے۔ سابقہ ادوار میں دو دفعہ تمہیں تباہ و برباد کیا گیا اور آج تمہاری کیا حالت ہے؟ کیا کوئی اپنے محبوب یا پیاروں کو بھی سزا دیتا اور رسوا کرتا ہے؟ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ان کا یہ دعویٰ بالکل باطل اور بے بنیاد ہے۔ دوسرا دعویٰ ان کا یہ تھا کہ ہم انبیاء کی اولاد ہیں اس لحاظ سے اللہ کے محبوب ہیں اور اخروی عذاب ہمیں نہیں ہوگا۔ اس دعویٰ کی تردید اللہ نے یوں فرمائی کہ اگر تم اپنے اس دعویٰ میں سچے ہو تو پھر تو تمہیں جلد از جلد مرنے کی آرزو کرنی چاہیے جس سے معلوم ہوا کہ صرف انسان کے اعمال ہی اس کی نجات اخروی کا ذریعہ بن سکتے ہیں حسب و نسب وہاں کچھ کام نہ آسکے گا۔ قیامت کے دن حسب ونسب کچھ کام نہ آئے گا :۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے کردیا اس کا نسب اسے آگے نہ کرسکے گا‘‘ (مسلم کتاب الذکر۔ باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن) اور جب سورۃ شعراء کی آیت ﴿وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ﴾ نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کو بلایا اور ان کے نام لے لے کر کہا مثلاً اے عباس بن عبدالمطلب! میں تیرے کچھ کام نہ آ سکوں گا۔ اے صفیہ! ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پھوپھی) میں آپ کے کچھ کام نہ آ سکوں گا۔ اے فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے مال میں سے جو تم چاہو مجھ سے (دنیا میں) طلب کرلو۔ میں تمہارے کسی کام نہ آ سکوں گا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر سورۃ شعرائ۔ مسلم کتاب الایمان۔ باب۔ وانذر عشیر تک الاقربین )