وَلَقَدْ أَخَذَ اللَّهُ مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيبًا ۖ وَقَالَ اللَّهُ إِنِّي مَعَكُمْ ۖ لَئِنْ أَقَمْتُمُ الصَّلَاةَ وَآتَيْتُمُ الزَّكَاةَ وَآمَنتُم بِرُسُلِي وَعَزَّرْتُمُوهُمْ وَأَقْرَضْتُمُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا لَّأُكَفِّرَنَّ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَلَأُدْخِلَنَّكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۚ فَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اور یقینا اللہ نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا، اور ہم نے ان میں سے بارہ نگراں مقرر کیے تھے (١٣) اور اللہ نے کہا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، اگر تم نے نماز قائم کی، زکوۃ ادا کی، میرے پیغمبروں پر ایمان لائے، عزت سے ان کا ساتھ دیا اور اللہ کو اچھا قرض دیا (١٤) تو یقین جانو کہ میں تمہاری برائیوں کا کفارہ کردوں گا، اور تمہیں ان باغات میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، پھر اس کے بعد بھی تم میں سے جو شخص کفر اختیار کرے گا تو درحقیقت وہ سیدھی راہ سے بھٹک جائے گا
[٣٣] بنی اسرائیل کے بارہ نقیب اور ان کی ذمہ داریاں :۔ نقیب کے معنی ہیں نگرانی اور تفتیش کرنے والا۔ بنی اسرائیل کے بارہ قبیلے تھے اور موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں موجود تھے۔ بنی اسرائیل نے جب موسیٰ علیہ السلام سے پانی کا مطالبہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں پتھر پر اپنا عصا مارو تو بارہ چشمے پھوٹ پڑیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور ہر قبیلہ نے اپنا اپنا چشمہ یا پانی پینے کی جگہ پہچان لی اور اس پر قابض ہوگیا۔ انہیں بارہ قبائل میں سے ہر قبیلہ سے ایک ایک نقیب مقرر کیا گیا۔ جس کا کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کے اخلاق و کردار کی نگرانی کرے اور انہیں بےدینی اور بداخلاقی سے بچانے کی کوشش کرتا رہے۔ [٣٤] اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ معیت چار باتوں سے مشروط تھا۔ (١) بنی اسرائیل نماز کو قائم کرتے رہیں (٢) زکوٰۃ ادا کرتے رہیں (٣) بعد میں جو رسول مبعوث ہوں ان پر ایمان بھی لائیں اور ان کی جان اور مال سے مدد بھی کریں اور (٤) لوگوں کو قرضہ حسنہ دیتے رہیں۔ گویا جو ذمہ داری ان نقیبوں پر ڈالی گئی تھی ان میں سے مذکورہ چار کام سب سے اہم تھے اور ان سے عہد یہ تھا کہ اگر وہ ذمہ داری پوری کرتے رہیں گے تو یقیناً اللہ ان کے ساتھ ہوگا اور ان کی ہر معاملہ میں مدد فرمائے گا۔ [٣٥] برائیاں دور کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو شخص نیکی کے مذکورہ بالا بڑے بڑے کاموں میں لگا رہے اس کا ذہن برائیوں کی طرف منتقل ہوتا ہی نہیں اور وہ برائیوں سے بچا رہتا ہے اور برائیاں اس سے دور رہتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر ان سے کچھ برائیاں سرزد ہو بھی جائیں تو وہ ایسی بڑی نیکیوں کے تلے دب جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ان پر گرفت ہی نہیں فرماتے۔ [٣٦] سیدھی راہ اور اس کی صفات :۔ سواء السبیل سے مراد وہ راہ ہے جو متوازن، معتدل اور افراط و تفریط سے پاک ہو۔ کیونکہ یہ راہ اس علیم و حکیم ہستی کی بتلائی ہوئی ہے جو تمام حقائق سے پوری طرح واقف ہے اور سب انسان اس کی نظروں میں یکساں ہیں۔ یہ کسی انسان کی بتائی ہوئی راہ نہیں۔ جس پر اس کے اپنے جذبات، وطن اور قوم کی محبت یا دوسری معاشی اور معاشرتی عوامل اثر انداز ہوجاتے ہیں اور وہ ایسی معتدل، متوازن اور افراط و تفریط سے پاک راہ کا سراغ لگا بھی نہیں سکتا۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی ہے کہ اس نے خود ہی انسانون کو یہ راہ بتلا دی جس سے انہیں اس دنیا میں بھی اس راستہ کی تلاش کے لیے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی اور آخرت میں بھی وہ کامرانیوں سے ہمکنار ہوجائے گا۔