يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ ۚ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ ۚ وَهُوَ يَرِثُهَا إِن لَّمْ يَكُن لَّهَا وَلَدٌ ۚ فَإِن كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ ۚ وَإِن كَانُوا إِخْوَةً رِّجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۗ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَن تَضِلُّوا ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
(اے پیغمبر) لوگ تم سے کلالہ کے بارے میں (یعنی ایسے آدمی کی میراث کے بارے میں جس کے نہ تو باپ ہو نہ اواد) فتوی طلب کرتے ہیں۔ کہہ دو اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں (حسب ذیل) حکم دیتا ہے۔ اگر کوئی ایسا مرد مر جائے جس کے اولاد نہ ہو (اور نہ باپ دادا) اور اس کے بہن ہو تو جو کچھ مرنے والا چھور مرا ہے اس کا آدھا بہن کا حصہ ہوگا اور بہن مرجائے اور اس کے اولاد نہ ہو تو اس (کے سارے مال) کا وارث وہ بھائی ہی ہوگا۔ پھر اگر دو بہنیں ہوں (یا دو سے زیادہ) تو انہیں ترکے میں سے دو تہائی ملے گا۔ اور اگر بھائی بہن (ملے جلے ہوں) کچھ مرد، عورتیں، تو پھر (اسی قاعدے سے حصے تقسیم ہوں گے کہ) مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ۔ اللہ تمہارے لیے اپنے احکام واضح کرتا ہے تاکہ گمراہ نہ ہو اور اللہ تمام باتوں کا علم رکھنے والا ہے
[٢٣٣] یہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے آخری ایام میں نازل ہوئی جس وقت سورۃ نساء مکمل ہوچکی تھی۔ اس میں کلالہ کی میراث کے ایک دوسرے پہلو کا ذکر ہے جس کے متعلق صحابہ کرام نے آپ سے استفسار کیا تھا۔ چونکہ کلالہ کی میراث کا حکم اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٢ میں مذکور ہے اور باقی احکام میراث بھی اسی سورۃ کی آیت نمبر ١١، ١٢ میں بیان ہوئے ہیں۔ اس لیے اس آیت کو بھی بطور تتمہ اسی سورۃ کے آخر میں شامل کیا گیا۔ واضح رہے کہ کسی بھی سورۃ کی آیات میں ربط اور ان کی ترتیب توقیفی ہے۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی الٰہی کی روشنی میں سب آیات کو اپنے مناسب مقام پر رکھا ہے۔ [٢٣٤] کلالہ کی میراث کی تقسیم :۔ اولاد تین قسم کی ہوتی ہیں (١) عینی یا حقیقی یا سگے بہن بھائی جن کے ماں اور باپ ایک ہوں۔ (٢) علاتی یا سوتیلے جن کا باپ تو ایک ہو اور مائیں الگ الگ ہوں۔ (٣) اخیافی یا ماں جائے۔ جن کی ماں ایک ہو اور باپ الگ الگ ہوں۔ اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٢ میں جو کلالہ کی میراث کے احکام بیان ہوئے تھے وہ اخیافی بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو اس آیت نمبر ١٧٦ میں بیان ہو رہے ہیں یہ حقیقی یا سوتیلے بہن بھائیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ کلالہ کی میراث کی تقسیم میں دو باتوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ایک یہ کہ اگر کلالہ کے حقیقی بہن بھائی بھی موجود ہوں اور سوتیلے بھی تو حقیقی بہن بھائیوں کی موجودگی میں سوتیلے محروم رہیں گے اور اگر حقیقی نہ ہوں تو پھر سوتیلوں میں جائیداد تقسیم ہوگی۔ اور دوسرے یہ کہ کلالہ کے بہن بھائیوں میں تقسیم میراث کی بالکل وہی صورت ہوگی جو اولاد کی صورت میں ہوتی ہے۔ یعنی اگر صرف ایک بہن ہو تو اس کو آدھا حصہ ملے گا۔ دو ہوں یا دو سے زیادہ بہنیں ہوں تو ان کو دو تہائی ملے گا اور اگر صرف بھائی ہی ہو تو تمام ترکہ کا واحد وارث ہوگا اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہوں تو ان میں سے ہر مرد کو ٢ حصے اور ہر عورت کو ایک حصہ ملے گا۔ کلالہ اس مرد یا عورت کو کہتے ہیں جس کی نہ تو اولاد ہو اور نہ ماں باپ، بلکہ آباء کی جانب میں کوئی رشتہ دار موجود نہ ہو۔ اب کلالہ کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ عورت ہو اور اس کا خاوند بھی موجود نہ ہو یا مرد ہو اور اس کی بیوی بھی نہ ہو۔ اور دوسری یہ کہ میت مرد ہو اور اس کی بیوی موجود ہو۔ یا میت عورت ہو تو اس کا خاوند موجود ہو۔ دوسری صورت میں زوجین بھی وراثت میں مقررہ حصہ کے حقدار ہوں گے۔ مثلاً کلالہ عورت ہے جس کا خاوند موجود ہے اور اس کی ایک بہن بھی زندہ ہے تو آدھا حصہ خاوند کو اور آدھا بہن کو مل جائے گا۔ اور اگر بہنیں دو یا دو سے زیادہ ہوں تو پھر عول کے طریقہ پر کل جائیداد کے چھ کے بجائے سات حصے کر کے تین حصے خاوند کو اور چار حصے بہنوں کو مل جائیں گے اور اگر بہن بھائی ملے جلے ہیں تو حسب قاعدہ للذکر مثل حظ الانثیین آدھی میراث ان میں تقسیم ہوگی۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر پہلی صورت ہو یعنی کلالہ عورت کا خاوند بھی نہ ہو یا مرد کی بیوی بھی نہ ہو اور اس کی صرف ایک بہن ہو تو آدھا تو اس کو مل گیا۔ باقی آدھا کسے ملے گا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ آدھا رد کے طور پر بہن کو بھی دیا جا سکتا ہے اور ذوی الارحام (یعنی ایسے رشتہ دار جو ذوی الفروض ہوں اور نہ عصبہ) یعنی دور کے رشتہ داروں مثلاً ماموں، پھوپھی وغیرہ یا ان کی اولاد موجود ہو تو انہیں ملے گا۔ اور اگر وہ بھی نہ ہوں تو بقایا آدھا حصہ بیت المال میں بھی جمع کرایا جا سکتا ہے اور ایسے حالات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں۔ [٢٣٥] یعنی صحابہ کرام کو کلالہ کی میراث کی تقسیم کے بعض پہلوؤں میں جو پریشانی ہوئی تھی اس کا حل اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے لہٰذا اب تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ضمناً اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب صحابہ کرام آپ سے کوئی مسئلہ پوچھتے تو آپ از خود اس کا جواب دینے کے بجائے وحی الٰہی کا انتظار کرتے رہتے تھے۔